عنوان: شوہر کا اپنی زندگی میں بیوی کے لیے اپنے کاروبار کے نفع کی وصیت کرنے کا حکم(10337-No)

سوال: ایک شخص کا انتقال ہوا، اس نے اپنی حیات میں کچھ رقم شرکت کے کاروبار میں لگائی تھی۔ اس کی وصیت تھی کہ اگر اس کی وفات پہلے ہوگئی تو اس کا نفع اس کی بیوی کو ملتا رہے گا اور جب بیوی کا بھی انتقال ہوجائے تو اصل رقم کسی مسجد یا مدرسہ کو دے دی جائے۔ اب اس شخص اور اس کی بیوی دونوں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اب اس وصیت کا شرعا کیا حکم ہے اور اس کو کیسے پورا کیا جائے گا؟

جواب: واضح رہے کہ وارث کے حق میں وصیت شرعاً باطل ہے ہاں! اگر کسی شخص نے اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کی ہو تو وارث کے حق میں کی جانے والی وصیت دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی، اگر دیگر تمام ورثاء بالغ ہوں اور انہوں نے اس وصیت کو پورا کرنے کی اجازت دے دی ہو تو اسے نافذ کیا جائے گا، اور جس کے لیے وصیت کی گئی ہے، اسے اس وصیت کے مطابق بھی حصہ دیا جائے گا اور اس کا شرعی حصہ بھی اسے ملے گا، لیکن اگر بعض ورثاء بالغ ہوں اور بعض نابالغ، اور بالغ ورثاء وصیت کے پورا کرنے کی اجازت دے دیں تو ان کے حصے کے بقدر وصیت پوری کی جائے گی اور نابالغ ورثاء کو ان کا حصہ پورا دیا جائے گا، اگر نابالغ ورثاء اجازت دے دیں تب بھی نابالغ کی اجازت کا اعتبار نہیں ہو گا، اور اگر ورثاء راضی نہ ہوں تو اس صورت میں اس وارث کو صرف اس کا متعین شرعی حصہ ملے گا اور یہ وصیت باطل ہوگی اور اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا، لہذا اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شوہر کا اپنی بیوی کے لیے مرنے کے بعد کاروبارکے نفع کی وصیت کرنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (655/6، ط: دار الفکر)
(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)۔۔۔(إلا بإجازة ورثته) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته

الهداية: (514/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال: "ولا تجوز لوارثه" لقوله عليه الصلاة والسلام: "إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث" ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه، ويعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية لأنه تمليك مضاف إلى ما بعد الموت، وحكمه يثبت بعد الموت.

بدائع الصنائع: (338/7، ط: دار الكتب العلمية)
ولو أوصى لبعض ورثته، فأجاز الباقون؛ جازت الوصية؛ لأن امتناع الجواز كان لحقهم لما يلحقهم من الأذى والوحشة بإيثار البعض، ولا يوجد ذلك عند الإجازة، وفي بعض الروايات عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» ، ولو أوصى بثلث ماله لبعض ورثته ولأجنبي، فإن أجاز بقية الورثة؛ جازت الوصية لهما جميعا.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 269 Mar 07, 2023
shohar /khawand ka apni zindagi me / mein biwi / zoja k liye apne karobar / business k nafa/ profit ki wasiat / wasiyat karne ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.