سوال:
ایک شخص عرصہ تین سال سے دماغ کی رگ پھٹنے کی وجہ سے مکمل صاحب فراش تھے، اب وہ چلنے تو لگ گئے ہیں، لیکن بول چال اور پہچاننے میں بہت کمی آگئی ہے، بہت کم کسی کو پہچان پاتے ہیں تو ان کے گزشتہ تین سالوں کے روزوں کے متعلق کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ وہ خود اور ان کے بچے کافی حد تک زکوة پر چل رہے ہیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر گزشتہ تین سالوں کے رمضان کے مہینے اس طرح دماغی مرض میں گزرتے رہے کہ مریض کو روزہ کا ہوش ہی نہیں تھا، اور یہ مرض رمضان کے پورے مہینہ باقی رہا، اور درمیان میں انہیں بالکل افاقہ نہیں ہوا تو ایسا شخص شرعا روزہ کا مکلف ہی نہیں رہا، ایسی صورت میں اس پر روزوں کی قضاء یا فدیہ لازم نہیں ہے۔
اور اگر کسی رمضان کے دوران کسی دن انہیں افاقہ ہوگیا تھا تو اس افاقہ کے بعد اس رمضان کے مہینے کے پورے روزے رکھنا ان پر لازم ہوگئے، لہذا اس صورت میں جو روزے قضا ہوگئے ہوں، ان پر ان کی قضا لازم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (208/1، ط: دار الفكر)
المجنون إذا أفاق في بعض الشهر يلزمه قضاء ما مضى، وإن استوعب جنونه كل الشهر لم يقضه، وفي ظاهر الرواية لم يفصل بين الجنون الطارئ على البلوغ والمقارن له كذا في محيط السرخسي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی