سوال:
ہمارے والد صاحب نے سوتیلی والدہ کے اصرار کرنے پر اپنا مکان ہمارے سوتیلے بھائیوں کے نام کردیا تھا، لیکن سوتئلے بھائی ہم کو اس میں سے ہمارا حصہ دینا چارہے ہیں، کیا ہمارے لیے اس مکان میں سے حصہ لینا جائز ہے؟
ہم چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں اور سب حیات ہیں، ہماری سگی والدہ کا انتقال والد صاحب سے پہلے ہی ہو گیا تھا، جبکہ دوسری سوتیلی والدہ بھی زندہ ہیں۔
جواب: واضح رہے کہ جس مکان میں ہبہ کرنے والے کی رہائش موجود ہو، جب تک ہبہ کرنے والا اس مکان سے اپنا سارا سامان لے کر نہ نکل جائے اور مکمل قبضہ نہ دے دے، اس وقت تک وہ مکان ہبہ کرنے والے کی ملیکت میں ہی رہتا ہے اور اس میں ہبہ تام نہیں ہوتا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں وہ مکان صرف نام کرنے سے والد مرحوم کی ملکیت سے نہیں نکلا، بلکہ والد مرحوم ہی اپنی زندگی کے آخر تک اس مکان کے مالک رہے، لہذا یہ مکان ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو ایک سو اٹھائیس (128) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو سولہ (16)، چھ بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو چودہ (14) اور چار بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوہ کو %12.5 فیصد حصہ، ہر ایک بیٹے کو %10.937 فیصد حصہ اور ہر ایک بیٹی کو %5.468 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ... الخ
و قوله تعالی: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ
الفتاوى التاتارخانیة: (فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه، 431/14، ط: رشیدیه کوئته)
"و في المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"
الھندیة: (378/4، ط: دار الفکر)
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار،هكذا في الفصول العمادية.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی