سوال:
میری شادی کو تقریبا پانچ سال ہو گئے ہیں، میری بیوی نے دو تین مرتبہ مجھ سے کہا ہے کہ میں نے اپنا مہر آپ کو معاف کر دیا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ اس پر تو کوئی گواہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی تحریر لکھی ہوئی ہے تو اس نے کہا کیا آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہے؟ اس پر میرا اللہ گواہ ہے۔ کیا صرف اتنا کہنے سے مہر معاف ہو جاتا ہے، جبکہ نہ ہی کوئی تحریری طور پر لکھا ہو اور نہ ہی کوئی گواہ ہوں۔
جواب: واضح رہے کہ مہر عورت کا شرعی حق ہے، لہذا اگر عورت اپنی خوشی اور رضامندی سے اپنا پورا مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دے تو معاف ہوجائے گا اور شوہر پر بعد میں اس کا ادا کرنا لازم نہیں رہے گا، البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ مہر معاف کرنے کے لیے شوہر کی طرف سے بیوی پر کسی بھی قسم کی زبردستی یا جبر و اکراہ کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 4)
وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَىْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيٓئًا مَّرِيٓئًاo
تفسیر القرطبی: (24/5، ط: دار الکتب المصریة)
الرابعة- قوله تعالى: (فإن طبن لكم عن شيء منه نفسا) مخاطبة للأزواج، ويدل بعمومه على أن هبة المرأة صداقها لزوجها بكرا كانت أو ثيبا جائزة، وبه قال جمهور الفقهاء.
البحر الرائق: (161/3، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله وصح حطها) أي حط المرأة من مهرها؛ لأن المهر في حالة البقاء حقها والحط يلاقيه حالة البقاء والحط في اللغة الإسقاط كما في المغرب أطلقه فشمل حط الكل أو البعض وشمل ما إذا قبل الزوج أو لم يقبل۔۔۔۔ولا بد في صحة حطها من الرضا حتى لو كانت مكرهة لم يصح، ولذا قال في الخلاصة من كتاب الهبة إذا خوف امرأته بضرب حتى وهبت مهرها لا يصح إن كان قادرا على الضرب. اه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی