سوال:
ہماری یونیورسٹی میں جن مسلمان ملازمین کی عرصہ 25 سال سروس مکمل ہو جائے تو ادارہ ان کو اپنی طرف سے حج پر بھیج دیتا ہے، پہلے ادارہ اس مد میں جو رقم دیتا تھا، وہ حج کے لئے کافی ہو جاتی تھی، یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ رقم صرف حج کے لیے ہوتی ہے اور ویسے ملازم کو نہیں ملتی، اس مرتبہ ادارے کے ایک پرانے ملازم (چپڑاسی) کی باری لگ گئی ہے، جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ادارہ کی طرف سے ملنے والی رقم ناکافی ہوگی تو کیا ہمارے کچھ دوست اپنی زکوٰۃ کی رقم سے اس ملازم کی مدد کرکے یہ کمی پوری کر سکتے ہیں، باقی ہر اعتبار سے وہ ملازم زکوٰۃ کا حقدار ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر مذکورہ شخص کو اب تک ادارہ کی طرف سے حج کے لیے رقم نہ دی گئی ہو اور وہ زکوۃ کا مستحق ہو تو اس کو زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دینا جائز ہے، پھر وہ چاہے تو اس رقم کو اپنے حج کے اخراجات میں خرچ کرے یا دیگر ضروریات میں خرچ کرے، حج ہی کے لیے اس رقم کو خرچ کرنا ضروری نہیں ہے۔
لیکن اگر ادارہ کی طرف سے حج کی مد میں دی گئی رقم اس کے پاس ہی ہو اور وہ رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔
تاہم اگر وہ شخص حج کے لیے درخواست جمع کرا دے جس کی وجہ سے اس کے ذمہ رقم کم ہونے کی وجہ سے قرض لازم آجائے اور وہ صاحب نصاب نہ رہے تو ایسی صورت میں بھی اس کو زکوۃ دینا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (189/1، ط: دار الفکر)
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي.
الدر المختار: (347/2، ط: دار الفکر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان كمن له نصاب سائمة لا تساوي مائة درهم.
بدائع الصنائع: (2 / 48، ط: دارالكتب العلمية)
أما الغنى الذي تجب به الزكاة فهو أن يملك نصابا من المال النامي الفاضل عن الحاجة الأصلية.وأما الغنى الذي يحرم به أخذ الصدقة وقبولها فهو الذي تجب به صدقة الفطر والأضحية وهو أن يملك من الأموال التي لا تجب فيها الزكاة ما يفضل عن حاجته وتبلغ قيمة الفاضل مائتي درهم من الثياب والفرش والدور والحوانيت والدواب والخدم زيادة على ما يحتاج إليه كل ذلك للابتذال والاستعمال لا للتجارة والإسامة، فإذا فضل من ذلك ما يبلغ قيمته مائتي درهم وجب عليه صدقة الفطر والأضحية وحرم عليه أخذ الصدقة، ثم قدر الحاجة ما ذكره الكرخي في مختصره.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی