سوال:
میں نے آٹا چکی کا کام شروع کیا ہے، بچپن سے لے کر آج تک آٹا چکی سے جب آٹا پسوانے جاتے ہیں تو وہ مزدوری کے ساتھ ایک کلو آٹا کاٹ لیتے ہیں یا آٹا نہ کاٹنے کی صورت میں مزدوری میں اضافہ کرتے ہیں، جبکہ اب میں نے یہ کام اسلام آباد میں شروع کیا ہے تو واقعی مشین گندم میں نمی کے حساب سے آٹا خشک کرتی ہے، جس سے وزن کم ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر 40 کلو گرام گندم کم ہو کر 39 کلو رہ جاتی ہے، جبکہ نئی گندم جس میں نمی زیادہ ہوتی ہے، وہ 38.05 کلو گرام رہ جاتی ہے۔ کیا شرعی اعتبار سے مارکیٹ ریٹ مزدوری پر 40 کلو گرام گندم کا 40 کلو گرام ہی آٹا دینا ضروری ہے؟
کیا ہم جو آٹا میشن خشک کرکے کم کرتی ہے، وہ کسٹمر کے ذمہ ڈال سکتے ہیں؟ کیونکہ مارکیٹ میں کمپٹیشن زیادہ ہونے کی وجہ سے نفع کا مارجن انتہائی کم ہے، جس سے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو جاتے ہیں، اگر ہم مزدوری زیادہ مقرر کریں گے تو اس سے دکانداری خراب ہوتی ہے۔ شریعت اس کے متعلق کیا کہتی ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں آٹے کی پسوائی کے دوران واقعی میں جتنا آٹا جل جاتا ہو یا نمی وغیرہ کی وجہ سے کم ہوجائے، آپ اس کمی کو پورا کرکے دینے کے پابند نہیں ہے، بلکہ بقیہ آٹا دینے کے پابند ہیں، تاہم اگر یقینی طور پر یہ معلوم کرنا مشکل ہو کہ کتنا آٹا کم ہوا ہے، تو ایسی صورت میں ایک محتاط اندازہ لگاکر پہلے سے گاہک کو بتا دیا جائے یا کسی نمایاں جگہ پر لکھ کر لگا دیا جائے کہ پسوائی کے عمل کی وجہ سے فی من مثلا ایک کلو آٹا کم (waste)ہوجائے گا، یا یوں لکھ دیا جائے کہ پسوائی کی صورت میں ہونے والی کمی (wastage) کے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے، اس کے بعد آپ مزدوری میں اضافہ کئے بغیر یہ معاملہ کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس میں جھوٹ یا دھوکے سے اضافی آٹا کاٹنا شرعأ جائز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (99/1، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن ابی ھریرة رضی الله عنه ان رسول الله صلی الله علیه وسلم مر علی صبرة طعام ۔۔۔ وفی آخره: من غش فلیس منی.
درر الحکام شرح مجلة الاحکام: (98/1، ط: دار الجیل)
(المادۃ: 97) لایجوز لاحد ان یاخذ مال احد بلا سبب شرعی
قیدت هذه المادة بقوله (بلا سبب شرعی) لانه بالاسباب الشرعیة کالبیع و الاجارة و الهبة و الکفالة و الحوالة یحق اخذ مال الغیر.
رد المحتار: (440/6، ط: دار الفکر)
(قوله والنار) ۔۔۔ وفی الذخیرة: إذا اراد الاخذ من الجمر شیئا له قیمة إذا جعله صاحبه فحما له ان یسترده منه، و ان یسیرا لا قیمة له فلا و له اخذه بلا اذن صاحبه.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الخلاص،کراچی