سوال:
کیا امام کے لیے جائز ہے کہ وہ رکوع اور سجدے کی تکبیرات میں مقتدیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے تاخیر کرے؟ تاکہ وہ امام سے رکوع اور سجدے میں سبقت نہ کر جائیں، جیسے کہ بہت سے ائمہ کی یہی عادت ہے۔
نیز اس کی بھی وضاحت فرمائیں کہ اس میں اقرب الی السنۃ کیا ہے کہ جب امام رکوع یا سجدے میں جانا شروع کرے، اسی وقت سے تکبیر شروع کرے یا تھوڑی تاخیر سے تکبیر شروع کرے؟ بعض اوقات امام معمر شخص ہوتا ہے، جس کو قیام سے سجدہ تک پہنچنے میں اور سجدہ سے قیام تک پہنچنے میں جوانوں سے زیادہ دیر ہو جاتی ہے، اگر وہ تکبیرات کو ذرا تاخیر سے نہیں کہے گا تو اندیشہ ہے کہ بہت سے مقتدی حضرات امام سے سبقت کر جائیں تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟
جواب: واضح رہے کہ رکوع ميں جاتے ہوئے تکبیر پڑھنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ نمازی رکوع کے لیے جھکتے ہی تکبیر پڑھنی شروع کردے اور رکوع میں پہنچتے ہی ختم کردے، سجدہ میں جاتے ہوئے تکبیر پڑھنے کا مسنون طریقہ بھی یہی ہے، اس کے خلاف کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے۔
نیز امام سے کسی رکن میں آگے بڑھنا چونکہ مکروہ ہے، لہذا اگر امام بوڑھا ہوچکا ہو تو مقتدی حضرات پر لازم ہے کہ وہ امام کے بڑھاپے کے عذر کا لحاظ رکھتے ہوئے اس قدر تاخیر سے رکوع اور سجدے وغیرہ میں جائیں کہ وہ امام کے بعد اس رکن میں پہنچیں، چنانچہ ایک حدیث مبارکہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تعلیم دی ہے، حضرت سیدنا معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”رکوع اور سجدوں میں تم مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کیا کرو، کیونکہ میں رکوع کرنے میں تم سے جس قدر آگے ہوں گا، میرے سر اٹھانے پر تمہاری یہ تلافی ہو جائے گی (کہ تم اتنا ہی تاخیر سے سر اٹھاؤ گے) بلاشبہ میں کسی قدر بھاری ہو گیا ہوں۔“ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 619)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داؤد: (رقم الحديث: 619، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن عجلان، حدثني محمد بن يحيى بن حبان، عن ابن محيريز عن معاوية بن أبي سفيان، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا تبادروني بركوع ولا بسجود، فإنه مهما أسبقكم به إذا ركعت تدركوني به إذا رفعت، إني قد بدنت".
إعلاء السنن: (330/4، ط: إدارة القرآن و العلوم الإسلامية)
وأما ما روى عن الصحابة أنهم كانوا لا يحنون ظهورهم حتى يقع النبي ﷺ ساجدا ، فكان ذلك لعارض، وهو أن النبي كان قد بدن في آخره، فكان يتبطأ ويتأتى في رفعه وخفضه، فلو تابعه الصحابة بالمواصلة لربما أدت إلى المسابقة، كما هو مشاهد من إفضاء مواصلة الخفيف السريع بالمبدن إلى المبادرة عليه أحيانا ، فاختارت الصحابة طريق المعاقبة لأجل هذه العلة احتياطا. يدل على ذلك ما رواه أبو داود، وسكت عنه عن معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ ﷺ : «لا تبادرونی برکوع ، ولا بسجود ، فإنه مهما أسبقكم به إذا رکعت تدركوني به إذا رفعت ، إني قد بدنت» اه (1 : 347) . فقوله ﷺ : «إنى قد بدنت» يدل على أن إرشاده إياهم إلى المعاقبة إنما كان لأجل هذه العلة فقط ، ولو كانت المعاقبة أولى من المواصلة دائما لم يكن لزيادة قوله: "إنى قد بدنت" وجه. ولا نزاع في كون المعاقبة أولى من المواصلة في مثل هذه الصورة، لأن الاحتراز عن المبادرة أكد وألزم.
الدر المختار مع رد المحتار: (493/1، ط: دار الفكر)
(ثم) كما فرغ (يكبر) مع الانحطاط (للركوع) .
(قوله مع الانحطاط) أفاد أن السنة كون ابتداء التكبير عند الخرور وانتهائه عند استواء الظهر، وقيل إنه يكبر قائما، والأول هو الصحيح كما في المضمرات وتمامه في القهستاني.
رد المحتار: (595/1، ط: دار الفكر)
الخامس: أن يأتي بهما قبله ويدركه الإمام فيهما، وهو جائز لكنه يكره اه ملخصا.
الفتاوى الهندية: (107/1، ط: دار الفكر)
ويكره للمأموم أن يسبق الإمام بالركوع والسجود وأن يرفع رأسه فيهما قبل الإمام. كذا في محيط السرخسي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی