سوال:
میرا پولٹری میڈیسن سپلائیر کا کام ہے، مجھے کمپنی سے میڈیسن اٹھانے کہ لیے کیش کی ضرورت ہے، بینک سے تو لون سود میں آجاتا ہے، کیا میں کیسی دوست سے رقم لے کر کمپنی کو دے دوں، اس طرح وہ پہلا خریدار بن جائے، پھر میں اس سے ادھار اٹھا لوں اور رقم ایک مدت طے کرکے دے دوں اور اس میں ان کا منافع فیکس کردوں، مثلاً: کمپنی سے کیش پر جو ایکسٹرا ڈسکاونٹ ملے، وہ ان کو دے دوں، میرا ان سے یہ معاملہ سود میں تو نہیں آجاتا؟ یا آپ مجھے مطلوبہ رقم کے حصول کا صحیح اسلامی طریقہ بتا دیں۔
جواب: واضح رہے کہ قرض پر زائد رقم لینا سود ہے، جو کہ حرام ہے، لہٰذا اس کی متبادل جائز صورت یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں پیسے دینے والا (خود یا آپ کو وکیل بناکر) مطلوبہ سامان خرید کر قبضہ میں لے لے، پھر وہ سامان آپ کو باہمی رضامندی سے طے شدہ قیمت کے عوض متعین مدت تک ادھار پر فروخت کردے، تو ایسی صورت میں یہ معاملہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الکبری للبیهقي: (باب کل قرض جر، رقم الحدیث: 11092)
عن فضالة ابن عبید صاحب النبي صلی ﷲ علیہ وسلم أنه قال: کل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا۔
الهندية: (کتاب البیوع، الباب الرابع عشر في المرابحة)
المرابحة بیع بمثل الثمن الأول وزیادۃ ربح -إلی قوله- والکل جائز
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی