سوال:
ایک خاتون جو گھروں میں کام کرتی ہیں اور بہت ضرورت مند بھی ہیں، ان کے شناختی کارڈ میں نام کے ساتھ "سید" لگا ہوا ہے، لیکن وہ کہتی ہیں کہ ہم وہ والے سید نہیں ہیں، لہذا آپ ہمیں اپنی زکوة دے سکتے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ان کو زکوة دی جا سکتی ہے؟
جواب: اگر تحقیق کرنے کے بعد زکوة دینے والے کا غالب گمان ہو کہ زکوة طلب کرنے والی عورت غیر سید اور مستحق زکوۃ ہے تو اس عورت کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے اسے زکوة دینا جائز ہے۔
نیز واضح رہے کہ اگر کوئی شخص سید نہ ہو تو اس کے لیے اپنے نام کے ساتھ لفظ "سید" لکھنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 6766، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا مسدد: حدثنا خالد، هو ابن عبد الله: حدثنا خالد، عن أبي عثمان، عن سعد رضي الله عنه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام).
الفتاوى الهندية: (190/1، ط: دار الفكر)
إذا شك وتحرى فوقع في أكبر رأيه أنه محل الصدقة فدفع إليه أو سأل منه فدفع أو رآه في صف الفقراء فدفع فإن ظهر أنه محل الصدقة جاز بالإجماع، وكذا إن لم يظهر حاله عنده.
رد المحتار: (252/2، ط: دار الفكر)
(قوله: لمن يظنه مصرفا) أما لو تحرى فدفع لمن ظنه غير مصرف أو شك ولم يتحر لم يجز حتى يظهر أنه مصرف فيجزيه في الصحيح خلافا لمن ظن عدمه، وتمامه في النهر.
وفيه: واعلم أن المدفوع إليه لو كان جالسا في صف الفقراء يصنع صنعهم أو كان عليه زيهم أو سأله فأعطاه كانت هذه الأسباب بمنزلة التحري كذا في المبسوط حتى لو ظهر غناه لم يعد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی