سوال:
ایک رشتہ دار نے مجھے اپنے زکوۃ کے پیسے دیے کہ میں اپنے حساب سے کسی مستند ادارے میں جمع کروا دوں۔
مجھے فی الحال پیسوں کی سخت ضرورت ہے تو کیا میرے لیے یہ جائز ہوگا کہ میں فی الحال یہ پیسے استعمال کر لوں اور جیسے ہی میرے پاس پیسے آجائیں تو میں زکوۃ جمع کروا دوں؟وہ قریبی رشتہ دار ہیں، اس وجہ سے ان سے پوچھنا اچھا نہیں لگ رہا۔ عنقریب چند مہینے میں میرے پاس پیسے آجائیں گے تو میں فورا ہی ان کے جمع کروا دوں گا۔
جواب: مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کو زکوٰۃ کی رقم صرف مستحق تک پہنچانے کا وکیل بنایا گیا ہے، اس لیے وہ رقم آپ کے پاس امانت کے حکم میں ہے، لہذا بغیر اجازت اس رقم کو ذاتی استعمال میں لانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر آپ اپنے رشتے دار سے اجازت لے لیں کہ آپ یہ رقم وقتی طور پر استعمال کر کے بعد میں ان کی طرف سے زکوٰۃ ادا کر دیں گے تو ایسی صورت میں آپ کے لیے اس رقم کا استعمال کرنا شرعاً جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الشاميۃ: (کتاب الزكاة،270،269/2،ط: سعید)
وكيل بدفع الزكاة إذا أمسك دراهم الموكل ودفع من ماله ليرجع ببدلها في دراهم الموكل صح. بخلاف ما إذا أنفقها أولا على نفسه مثلا ثم دفع من ماله فهو متبرع.
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصّواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی