سوال:
بیوی اور شوہر کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوگیا، جس سے دونوں کے درمیان بات چیت میں کچھ کمی ہوئی اور بیوی شوہر کے کام روٹین کے مطابق کرتی رہی، لیکن بیوی اپنے کمرے میں اکیلے سوئے اور کمرہ لاک کرے اور شوہر کی خواہش کے باوجود مخصوص ازدواجی تعلقات قائم نہ کرنے دے اور جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کرے جس سے شوہر کو تکلیف ہو تو ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ شوہر نے بیوی کو مناسب گھر اور باقی تمام سہولیات اپنی بساط کے مطابق فراہم کیے ہوئے ہیں اور بیوی باقی تمام گھریلو امور باحسن طریقہ انجام دے رہی ہے۔
جواب: اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک شادی شدہ عورت کا اپنی ازدواجی زندگی کے متعلق سب سے اہم وظیفہ یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کی راحت و سکون کا خیال رکھے، اور اس کی حاجت کو دوسرے تمام کاموں پر مقدم رکھے، حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے، اگرچہ تنور پر (کھڑی) ہو" (ترمذی، حدیث نمبر:1160)
احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی پر شوہر کی جنسی خواہش کو پورا کرنا لازم ہے اور بغیر شرعی عذر کے اس سے انکار شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو، جیسے ایامِ حیض و نفاس، بیماری، احرام کی حالت، شوہر کا حدِ اعتدال سے زیادہ ہم بستر ہونا جس کی بیوی میں طاقت نہ ہو، یا شوہر کی جانب سے تسکین شہوت کے لیے غیر فطری راستہ اختیار کرنے کا مطالبہ کرنے وغیرہ کی صورت میں بیوی انکار کرسکتی ہے، اور اس صورت میں وہ گناہ گار نہیں ہوگی۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر خاتون کو کوئی عذر نہیں ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی اس خود ساختہ تنہائی کو ترک کرکے شوہر کے ساتھ سوئے، اور اپنے شوہر کی راحت اور سکون کا خیال کرے اور اسے تکلیف دینے سے پرہیز کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1160، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن قيس بن طلق، عن أبيه طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته، وإن كانت على التنور
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 5193، ط: دار طوق النجاۃ)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه، فأبت أن تجيء، لعنتها الملائكة حتى تصبح.
بدائع الصنائع: (331/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وللزوج أن يطالبها بالوطء متى شاء إلا عند اعتراض أسباب مانعة من الوطء كالحيض والنفاس والظهار والإحرام وغير ذلك، وللزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج، ويجبر عليه في الحكم مرة واحدة والزيادة على ذلك تجب فيما بينه، وبين الله تعالى من باب حسن المعاشرة واستدامة النكاح، فلا يجب عليه في الحكم عند بعض أصحابنا، وعند بعضهم يجب عليه في الحكم.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی