عنوان: صلاۃ التسبیح، صلاۃ الحاجة اور صلاۃ الشکر کا حدیث سے ثبوت(10604-No)

سوال: صلوۃ التسبیح، صلوۃ الحاجت اور صلوۃ شکر کی حدیث کی روشنی میں وضاحت کر دیں کہ کیا یہ نمازیں سنت سے ثابت ہیں؟

جواب: آپ نے سوال میں تین نمازوں کے ثبوت سے متعلق پوچھا ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:‏
‏1) صلاۃ التسبیح
‏ صلاۃ التسبیح حدیث کی مستند کتاب "سنن أبی داؤد" میں مذکور جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ ابن عباس ‏رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے، حدیث مبارکہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو:‏
‏"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے چچا ‏حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا : "اے عباس! اے میرے پیارے چچا! کیا میں آپ کی خدمت میں ایک ‏گراں قدر عطیہ اور قیمتی تحفہ پیش نہ کروں؟ کیا میں آپ کو ایک انعام نہ دوں؟ کیا میں آپ کو ایسی دس عادتیں نہ ‏بتلاؤں، جنہیں اگر آپ کرلیں تو اللہ تعالی آپ کے اگلے پچھلے، چھوٹے بڑے، کھلے چھپے، سارے گناہ معاف ‏فرمادے، وہ عمل صلوة التسبیح ہے"۔
پھر آپ علیہ السلام نے انہیں صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ بتلانے کے بعد آخر میں ارشاد فرمایا: ‏
‏"اگر آپ سے ہوسکے تو روزانہ یہ نماز پڑھ لیا کریں، اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کو پڑھ لیا کریں، ‏اور اگر آپ یہ بھی نہ کرسکیں تو ہر مہینے میں ایک مرتبہ پڑھ لیں، اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو سال میں ایک دفعہ پڑھ ‏لیا کریں، اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو (کم از کم ) زندگی میں ہی ایک دفعہ پڑھ لیں۔ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر:1297)
‏2) صلاۃ الحاجة
صلاة الحاجۃ حدیث کی مایہ ناز کتاب "سنن ترمذی" میں ‏مذکور ایک حدیث سے ثابت ہے، ذیل میں اس کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:‏
‏"حضرت عبدالله بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم ﷺ نے فرمایا: "جسے ‏اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو (پہلے) وہ اچھی طرح وضو کرلے، پھر ‏دو رکعتیں ادا کرے، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرے اور (اس کے) نبی( ﷺ) پر درود (وسلام) بھیجے، پھر یہ ‏‏(دعا ) پڑھے:‏
‏" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، ‏‏‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، ‏‏‏‏‏‏الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ‏الْعَالَمِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، ‏‏‏‏‏‏‏وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، ‏‏‏‏‏‏لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا حَاجَةً ‏هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ"‏‎.‎(سنن ترمذي، حديث نمبر: 479)
‏3) صلاۃ الشکر
‏"مسند البزّار" میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث منقول ہے، فرماتے ہیں ‏کہ
‏"جناب نبی کریم ﷺ ایک دن اپنے در ِدولت سے نکلے، تو میں آپ کے پیچھے ہولیا، چنانچہ آپ ‏ﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے، (وہاں) نماز پڑھی اور طویل سجدہ کیا، تو میں (دل ہی دل میں) کہنے لگا کہ اللہ ‏تعالیٰ نے جناب رسول اللہ ﷺ کے روح کو قبض کرلیا، میں یہ کبھی نہ دیکھوں۔ چنانچہ میں غمزدہ ہوگیا اور رونے ‏لگا، (جب) آپ ﷺ نے (فارغ ہونے کے بعد) اپنا سر مبارک اٹھایا تو مجھے آواز دے کر فرمایا: "تمہیں کیا ‏ہوگیا؟ یا کس چیز نے تمہیں پریشان کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے بہت لمبا سجدہ کیا تو میں (اپنے دل میں) ‏کہنے لگا کہ اللہ جلّ شانہٗ نے آپ کی روح قبض کرلی ہے، اللہ مجھے یہ کبھی نہ دکھائے، اس لئے میں پریشان ہوکر ‏رُو پڑا، آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے یہ (طویل) سجدہ اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لیے کیا، کیونکہ اللہ نے مجھے ‏اپنی امت کے متعلق آزمایا اور پھر (عظیم انعام اور خوشی کی خبر دے کر) ارشاد فرمایا کہ: "ان (آپ کی امت) میں ‏سے جو آپ کے اوپر دس مرتبہ درود پڑھےگا، میں اس کے لئے دس نیکیاں لکھوں گا"۔ ‏(مسند بزار، حدیث نمبر: 1006)
اسی طرح فتح مکہ کے دن بھی آپ ﷺ نے اپنی خوشی اور نعمت کا اظہار کرنے کے لئے شکرانہ کے نوافل ‏پڑھے، جس سے کسی خوشی کے موقع پر شکرانہ کے نوافل پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
لہٰذا مذکورہ تینوں نفل نمازیں (صلاۃ التسبیح، صلاۃ الحاجت اور صلاۃ الشکر) سنت اور احادیث سے ثابت ہیں، ‏ان پر وقتاً فو قتاً عمل کرتے رہنا چاہیے، البتہ انہیں لازم اور ضروری نہیں سمجھنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبى داود: (رقم الحديث: 1297، ط: دار الرسالة العالمیة)‏
عن ابن عباس أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال للعباس بن عبد ‏المطلب « يا عباس يا عماه ألا أعطيك ألا أمنحك ألا أحبوك ألا أفعل بك ‏عشر خصال إذا أنت فعلت ذلك غفر الله لك ذنبك أوله وآخره قديمه ‏وحديثه خطأه وعمده صغيره وكبيره سره وعلانيته عشر خصال أن تصلى أربع ‏ركعات تقرأ فى كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة فإذا فرغت من القراءة فى أول ‏ركعة وأنت قائم قلت سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر خمس ‏عشرة مرة ثم تركع فتقولها وأنت راكع عشرا ثم ترفع رأسك من الركوع فتقولها ‏عشرا ثم تهوى ساجدا فتقولها وأنت ساجد عشرا ثم ترفع رأسك من السجود ‏فتقولها عشرا ثم تسجد فتقولها عشرا ثم ترفع رأسك فتقولها عشرا فذلك خمس ‏وسبعون فى كل ركعة تفعل ذلك فى أربع ركعات إن استطعت أن تصليها فى كل ‏يوم مرة فافعل فإن لم تفعل ففى كل جمعة مرة فإن لم تفعل ففى كل شهر مرة ‏فإن لم تفعل ففى كل سنة مرة فإن لم تفعل ففى عمرك مرة ».‏

سنن الترمذي: (رقم الحديث: 479، ط: دار الغرب الاسلامی)‏
عن عبد الله بن أبي أوفى قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "من ‏كانت له إلى الله حاجة أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ، فليحسن الوضوء، ثم ‏ليصل ركعتين، ثم ليثن على الله، وليصل على النبي صلى الله عليه و سلم، ثم ‏ليقل: لاإله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب ‏العالمين، أسئلك موجبات رحمتك، وعزائم مغفرتك، والغنيمة من كل بر، ‏والسلامة من كل إثم، لا تدع لي ذنبا إلى غفرته، ولا هما إلا فرجته، ولا حاجة ‏هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين"‏‎.‎

مسند البزار: (رقم الحدیث: 1006)‏
عن سعد بن إبراهيم عن أبيه عن جده عبد الرحمن بن عوف قال كان لا يفارق ‏النبي صلى الله عليه وسلم أو‎ ‎باب النبي صلى الله عليه وسلم خمسة أو أربعة من ‏أصحابه فخرج ذات يوم فاتبعته فدخل حائطا من حيطان الأسواق فصلى ‏فسجد فأطال السجود فقلت قبض الله روح رسوله صلى الله عليه وسلم لا أراه ‏أبدا فحزنت وبكيت فرفع رأسه فرآني فدعاني فقال ما الذي بك أو ما الذي ‏أرابك فقلت يا رسول الله أطلت السجود فقلت قد قبض الله رسوله لا أراه ‏أبدا فحزنت وبكيت قال سجدت هذه السجدة شكرا لربي فيما أبلاني في أمتي ‏ثم إنه قال من صلى عليك منهم صلاة كتبت له عشر حسنات‎.‎

سنن الدارمي: (رقم الحدیث: 1503)‏
حدثنا أبو نعيم ثنا سلمة بن رجاء حدثتنا شعثاء قالت * رأيت بن أبي أوفى ‏صلى ركعتين وقال صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الضحى ركعتين حين ‏بشر بالفتح أو برأس أبي جهل‎.‎

العرف الشذي للكشميري: (33/2، ط: المدقق مؤسسة ضحى)‏
قوله : ( فسبح ثمان ركعات ) قال الحافظ : إن في ابن خزيمة تصريح السلام ‏على كل ركعتين ، أقول : إن في سنن أبي داود أيضاً تصريح السلام على كل ‏ركعتين ، ولقد أبعد الحافظ النجعة بعيداً حين رواه من ابن خزيمة مع كون ‏الحديث في سنن أبي داود ثم قيل : إن هذا الحديث لا يفيد في إثبات الضحى ‏فإن هذه الصلاة صلاة الشكر على فتح مكة إلا أنه اتفق وقت الضحى.‏

المحيط البرهاني: (156/5، ط: دار إحياء التراث العربي)‏
فتمام الشكر أن يصلي ركعتين كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم ‏فتح مكة،‎…..‎و‎ ‎أما ما روي من الأحاديث قلنا: يحتمل أن المراد من السجدة ‏المذكورة فيها الصلاة، فأهل الحجاز يسمون الصلاة سجدة، قال الله تعالى: ‏‏{يا مريم اقنتي لربك واسجدي} (آل عمران:43) أي صلي، وإذا جاز تسمية ‏الصلاة سجدة احتمل أن يكون المراد من الحديث الصلاة.‏

شرح سنن ابن ماجه: (100/1، ط: قديمي كتب خانه)‏
ورابعها سجدة الشكر على حصول نعمة واندفاع بلية وفيها اختلاف فعند ‏الشافعي وأحمد سنة وهو قول محمد والأحاديث والاثار في ذلك كثيرة وعند ‏أبي حنيفة ومالك ليس بسنة بل هي مكروهة وهم يقولون ان المراد بالسجدة ‏الواقعة في تلك الأحاديث والاثار الصلاة عبر عنها بالسجدة وهو كثير اطلاقا ‏للجزء على الكل‎.‎

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 743 Jun 12, 2023
salatey tasbeeh,salatey hajat or salatul shukar ka hadis / hadees se/ say sabot /

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.