سوال:
حضرت ! ایک مسئلہ میں رہنمائی کردیں، ایک لڑکا ( اہل سنت والجماعت) شیعہ لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے، وہ شیعہ لڑکی اِس بات پر راضی ہے کہ وہ ( اہل سنت والجماعت ) کا عقیدہ اختیار کر لے گی، فی الحال والدین کے گھر میں ایسا کرنا ممکن نہیں، پر لڑکے سے نکاح کے بعد وہ لڑکے کے مذہب پر قائم ہوجائیگی، والدین یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ وہ تمام صحابہ پر عقیدت کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں، لڑکی فی احال اپنا مذہب تبدیل کرنا والدین پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی، کیا ایسی صورت میں نکاح ہو سکتا ہے ؟
جواب: واضح ہو کہ نکاح کی بنیادی شرط یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی ( میاں بیوی) مسلمان ہوں۔
شیعوں کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی شیعہ عورت قرآنِ مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیلِ امین سے وحی پہنچانے میں غلطی ہونے کا عقیدہ رکھتی ہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتی ہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتی ہو، یا بارہ اماموں کی امامت من جانب اللہ مان کر ان کو معصوم مانتی ہو، تو یہ عورت اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگی، لہذا ایسی عورت کے ساتھ کسی صورت نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔
اور اگر اس کا عقیدہ کفر تک نہ پہنچتا ہو، تو وہ دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوگی، البتہ گم راہ اور اہلِ سنت والجماعت سے خارج ہوگی۔
اسی وجہ سے ایسی شیعہ عورت کے ساتھ نکاح تو ہو جائے گا، لیکن بہتر یہ ہے کہ ایسے گھرانے میں نکاح کیا جائے، جو پورا گھرانہ سنی العقیدہ ہو۔
نیز شیعوں کے ہاں تقیہ ( جھوٹ بولنا ، اصل بات کو چھپانا) کا عام رواج ہے اور ان کے نزدیک یہ عبادت کا حصہ ہے، ایسی صورت میں کسی شیعہ عورت کے وعدے پر کیونکر یقین کیا جا سکتا ہے، کہ نکاح کے بعد وہ سنی عقیدہ اپنا لے گی۔
نیز خدانخواستہ تقیہ کی مدت طویل ہوگئی تو بہت سے مفاسد کا اندیشہ ہے، لہذا کسی سنی صالحہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا زیادہ بہتر ہے۔
اس تمام تفصیل کے باوجود اگر وہ نکاح سے پہلے اپنے عقائد سے براءت کا اعلان کرتی ہے، واضح طور پر اقرار کرتی ہے اور لکھ کر بھی دیتی ہے، تو اس کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے اس کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (282/1، ط: دار الفکر)
ولا يجوز للمرتد أن يتزوج مرتدة ولا مسلمة ولا كافرة أصلية وكذلك لا يجوز نكاح المرتدة مع أحد، كذا في المبسوط
ولا يجوز تزوج المسلمة من مشرك ولا كتابي، كذا في السراج الوهاج.
و فیھا ایضاً: (264/2، ط: دار الفکر)
الرافضي إذا كان يسب الشيخين ويلعنهما والعياذ بالله، فهو كافر، وإن كان يفضل عليا كرم الله تعالى وجهه على أبي بكر - رضي الله تعالى عنه - لا يكون كافرا إلا أنه مبتدع والمعتزلي مبتدع إلا إذا قال باستحالة الرؤية، فحينئذ هو كافر كذا في الخلاصة.
ولو قذف عائشة - رضي الله تعالى عنها - بالزنا كفر بالله، ولو قذف سائر نسوة النبي - صلى الله عليه وسلم - لا يكفر ويستحق اللعنة، ولو قال عمر وعثمان وعلي - رضي الله عنهم - لم يكونوا أصحابا لا يكفر ويستحق اللعنة كذا في خزانة الفقه۔۔۔۔۔۔۔ويجب إكفار الروافض في قولهم برجعة الأموات إلى الدنيا، وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإله إلى الأئمة وبقولهم في خروج إمام باطن وبتعطيلهم الأمر والنهي إلى أن يخرج الإمام الباطن وبقولهم إن جبريل - عليه السلام - غلط في الوحي إلى محمد - صلى الله عليه وسلم - دون علي بن أبي طالب - رضي الله عنه -، وهؤلاء القوم خارجون عن ملة الإسلام وأحكامهم أحكام المرتدين كذا في الظهيرية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی