سوال:
ایسا دوکاندار جو کمپیوٹر کے ذریعے لوگوں کے میموری کارڈ وغیرہ میں فلمیں اور گانے بجانے بھرتا ہے، ایسے شخص کو قربانی میں شریک کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا اس سے دوسرے شرکاء کی قربانی پر اثر پڑے گا؟
جواب: واضح رہے کہ جس شخص کی کل یا اکثر آمدنی حرام ہو اور وہ اسی آمدنی سے قربانی میں شریک ہوتا ہو تو ایسے شخص کو قربانی میں شریک کرنا جائز نہیں ہے۔
پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ دکاندار کی کل یا اکثر آمدنی کا ذریعہ میموری کارڈ وغیرہ میں فلمیں اور گانے ڈاؤنلوڈ کرنے کا ہو تو چونکہ اس کی کل یا غالب کمائی حرام کی ہے، لہذا اس شخص کو قربانی میں شریک کرنا جائز نہیں ہے۔ شریک کرنے کی صورت میں اس جانور میں کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی، البتہ اگر مذکورہ شخص حلال مال سے یا کسی سے قرض رقم لے کر قربانی میں شریک ہو جائے تو اس کو قربانی میں شریک کرنا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (326/6، ط: سعيد)
(وإن) (كان شريك الستة نصرانيا أو مريدا اللحم) (لم يجز عن واحد) منهم لأن الإراقة لا تتجزأ هداية لما مر.
الهندية: (304/5، ط: رشيدية)
وإن كان كل واحد منهم صبيا أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانيا ونحو ذلك لا يجوز للآخرين أيضا كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذميا كتابيا أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لا يتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقة بالعدم، فكأن يريد اللحم والمسلم لو أراد اللحم لا يجوز عندنا، وكذلك إذا كان أحدهم عبدا أو مدبرا ويريد أضحية، كذا في البدائع.
و فيها ايضا: (343/5، ط: رشيدية)
آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی