سوال:
کیا پہلے دن رمی زوال سے پہلے کرنا بہت ضروری ہے؟
جواب: پہلے دن کی رمی زوال سے پہلے ضروری نہیں ہے، البتہ طلوع آفتاب کے بعد سے زوال تک کرلینا مسنون ہے، اگر کوئی اس دوران رمی نہ کرسکے تو مغرب سے پہلے پہلے بھی بلا کراہت جائز ہے، البتہ بلا عذر مغرب سے تاخیر کرنا مکروہ ہے، تاہم اگر کسی عذر (مثلاً: مرض، کمزوری یا ازدحام وغیرہ) کی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو مغرب کے بعد سے اگلے دن صبح صادق سے پہلے تک بھی اس کی ادائیگی بلا کراہت درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
النهاية في شرح الهداية للسغناقي: (100/6، ط: مركز الدراسات الإسلامية)
وأما الرمي في الأول من أيام النحر، فيجوز قبل الزوال بالاتفاق في الروايات كلها على ما ذكرنا. (فأما يوم النحر فأول وقت الرمي من وقت طلوع الفجر)
رد المحتار: (515/2، ط: دار الفكر)
(قوله ويكره للفجر) أي من الغروب إلى الفجر وكذا يكره قبل طلوع الشمس بحر، وهذا عند عدم العذر فلا إساءة برمي الضعفة قبل الشمس ولا برمي الرعاة ليلا كما في الفتح.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی