سوال:
ایک شخص نے گندم خریدی، فروخت کرنے والا اس کو کہتا ہے کہ میں اس گندم کی رقم چھ مہینے بعد اس وقت جو گندم کا ریٹ ہوگا اس ریٹ کے مطابق رقم لوں گا تو کیا اس طرح کی خرید و فروخت کا معاملہ کرنا ٹھیک ہے؟
جواب: خرید و فروخت کے معاملے میں قیمت کا معلوم و متعین ہونا شرعاً ضروری ہے، کیونکہ قیمت غیر معلوم ہونے کی وجہ سے بعد میں کسی موقع پر تلخی و ناگواری کی نوبت آسکتی ہے جو بسا اوقات جھگڑے کا سبب بنتی ہے، اس لیے شریعت ایسے معاملہ کو پسند نہیں کرتی ہے۔
مذکورہ معاملے میں چونکہ قیمت شروع سے معلوم نہیں ہے، اس لیے ایسا معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
اس کی متبادل درست صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فی الوقت ایک قیمت متعین کرکے معاملہ کیا جائے، چاہے قیمت بعد میں ادا کی جائے یا ابھی خرید و فروخت کا حتمی سودا نہ کیا جائے، بلکہ آئندہ کی کسی تاریخ میں خریداری کا وعدہ کیا جائے اور پھر خریداری کے موقع پر قیمت متعین کرلی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (3/3، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی