سوال:
مفتی صاحب! امسال ہمارے گروپ نے الحمدللہ حج کیا ہے۔ تربیت کی عدم موجودگی میں ایک سنگین غلطی ہوگئی ہے۔
ہم نے حج کا احرام باندھنے سے لے کر اختتام حج کے دوران تک قطعی طور پر ایک بار بھی تلبیہ نہیں پڑھا، کیا ہمارا حج درست اور قابل قبول ہے؟ ( حالانکہ جب ہم سب نے عمرہ کے احرام میں تلبیہ کا ورد لگا تار جاری رکھا تھا)
جواب: حج یا عمرہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ میقات میں داخل ہونے سے پہلے نیت کے ساتھ ساتھ زبان سے تلبیہ پڑھے یا تلبیہ کی نیت سے ذکر کے ایسے کلمات کہے جو تعظیم کے مضمون پر مشتمل ہو جیسے "سبحان الله"، "الحمدلله" یا "لا الٰه الله" وغیرہ۔
محض نیت کرلینے سے آدمی احرام میں داخل نہیں ہوتا، لہذا میقات میں داخل ہونے سے پہلے نیت اور تلبیہ پڑھنے سے حج یا عمرہ کا احرام درست ہو جاتا ہے، البتہ اگر میقات میں داخل ہونے کے بعد تلبیہ کے کلمات ادا کئے جائیں تو اس صورت میں حج یا عمرہ تو درست ہو جاتا ہے، البتہ میقات سے بغیر احرام کے گزرنے کی وجہ سے حدود حرم میں دم دینا لازم ہوتا ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں مذکورہ تفصیل کے مطابق اگر آپ لوگوں نے تلبیہ یا اس کی جگہ تلبیہ کی نیت سے ذکر کے ایسے کلمات ادا کیے تھے جو تلبیہ کے قائم مقام ہوں تو آپ لوگ کا احرام درست ہو گیا تھا اور آپ کا حج ادا ہوگیا ہے، لیکن اگر آپ لوگوں نے نہ تلبیہ پڑھا تھا اور نہ ہی اس کی جگہ تلبیہ کی نیت سے ذکر کے کلمات ادا کیے تھے تو اس صورت میں آپ لوگوں کا حج درست نہیں ہوا ہے، آپ لوگوں پر اس کی قضاء لازم ہے، نیز اس دوسری صورت میں بھی بغیر احرام کے ميقات میں داخل ہونے کی وجہ سے دم لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (257/1، ط: مکتبة رحمانية)
ولايصير شارعا في الاحرام بمجرد النية ما لم يات بالتلبية خلافا للشافعي لانه عقد على الاداء فلابد من ذكر كما في تحريمة الصلاة ويسير شارعا بذكر يقصد به التعظيم سوى التلبية فارسية كانت او عربية وهذا هو المشهور عن اصحابنا والفرق بينه وبين الصلاة على اصلهما ان باب الحج اوسع من باب الصلاة حتى يقام غير الذكر مقام الذكر كتقليد البدن فكذا غير التلبية وغير العربية.
بدائع الصنائع: (161/2، ط: العلمية)
وذكرنا التلبية المسنونة، ولو ذكر مكان التلبية التهليل أو التسبيح أو التحميد أو غير ذلك مما يقصد به تعظيم الله تعالى مقرونا بالنية يصير محرما۔
رد المحتار: (فصل فی الاحرام و صفة المفرد، 483/2، ط: دار الفکر)
والحاصل أن اقتران النية بخصوص التلبية ليس بشرط بل هو السنة وإنما الشرط اقترانها بأي ذكر كان.
غنیة الناسک: (ص: 75، ط: ادارة القرآن کراتشی)
والتلبیة مرۃ شرط وهو عند الاحرام لا غیر والزیادۃ علی المرۃ سنة والإکثار منها مستحب فی کل حال قائماً و قاعداً ومضطجعاً وماشیاً وراکباً ونازلاً وواقفاً وسائراً وطاهراً ومحدثاً وجنباً وحائضاً۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی