سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ شادی سے ایک دن پہلے میلاد کرانا یا اس میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نبی کریم ﷺ پر درود شریف پڑھنا اور آپ ﷺ کے محاسن اور خوبیوں کو بیان کرنا ایک بابرکت عمل ہے، لیکن مروجہ رسمِ میلاد کسی قرآنی آیت، حدیث نبوی یا صحابہؓ اور تابعین کے اقوال سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بعد کے لوگوں کی اختراع ہے، البتہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے جائز مضامین پر مشتمل نعت پڑھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
چونکہ آج کل شادی بیاہ کے موقع پر میلاد اور اس کے بعد کھانا پینا محض ایک رسم بن چکی ہے اور بعض جگہ تو اسے ضروری اور لازم سمجھا جاتا ہے، نیز اس اجتماع میں بہت سی ایسی خرابیاں (مثلاً: مرد و زن کا مخلوط اجتماع، عورتوں کا اپنی آوازیں بلند کرنا وغیرہ) پیدا ہوگئی ہیں، جن کے بارے میں قرآن و سنت میں صریح ممانعت آئی ہے، اس لیے اس رسم کو ترک کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رأس السنة هل نحتفل: (84/1، ط: دار الخلفاء الراشدين)
وكل هذه التهاني ماعدا الأول منها لم يثبت فيها شيء عن النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - ولا عن الصحابة الكرام ولا عن أحد من السلف مع أن موجبها انعقد في زمن النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - والصحابة - رضي الله عنهم - ولم يوجد المانع ومع ذلك لم ينقل عن أحد منهم أنه فعل ذلك بل قصروا التهنئة على العيدين فقط۔
الاعتصام للشاطبي: (53/1، ط: دار ابن عفان، السعودية)
ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی