resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد فلائیٹ کینسل ہوجانے سے متعلق چند مسائل(10826-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے ایک دوست رانا اپنی اہلیہ کے ساتھ عمرہ کےلیے ایئر پورٹ پہنچے، احرام باندھ کر نفل پڑھ لیے، ان کی اہلیہ نے تلبیہ بھی پڑھ لیا، لیکن رانا صاحب نے تلبیہ نہیں پڑھا، آٹھ گھنٹے ایئر پورٹ پر انتظار کروانے کے بعد پی آئی اے نے فلائیٹ کینسل کردی اور سب لوگوں کو گھر بھیج دیا، گھر میں جا کر دونوں میاں بیوی نے کپڑے بدل لیے، رانا صاحب احرام کی چادروں سے شلوار قیص اور انکی اہلیہ نے گھر میں کام کرنے والے سادہ کپڑے بدل لیے، اگلے دن تقریباً چوبیس گھنٹے بعد پی آئی اے نے سب مسافروں کو دوبارہ بلوا لیا کہ اب جہاز ٹھیک ہو گیا ہے، اس دوران ان دونوں میاں بیوی نے ازدواجی تعلق قائم نہیں کیا، اگلے دن دوبارہ ایئر پورٹ جاکر احرام باندھا۔ اس تمہید کے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ:
(1) کیا رانا صاحب پر دم واجب ہے جنہوں نے تلبیہ نہیں پڑھا؟
(2) کیا ان کی اہلیہ ہر دم واجب ہے جنہوں نے تلبیہ پڑھا اور شلوار قمیض بدل لیے؟
(3) کیا دونوں پر عمرہ کی قضا واجب ہے؟
(4) کیا دم کی قربانی صرف حرم مکہ میں کی جا سکتی ہے؟ جزاکم اللہ خیرا

جواب: (1) اگر آپ کے دوست نے احرام باندھنے کے بعد عمرہ کی نیت سے تلبیہ نہیں پڑھا تھا تو ان پر دم واجب نہیں ہوا۔
(2) محض احرام کے کپڑے بدلنے سے ان کی اہلیہ پر دم واجب نہیں ہوا، بشرطیکہ انہوں نے ممنوعات احرام میں سے کوئی عمل نہ کیا ہو، جیسے خوشبو والا صابن، شیمپو وغیرہ
(3) اگر دونوں نے اس کے بعد عمرہ کرلیا ہے تو ان پر عمرہ کی قضاء نہیں۔
(4) جی ہاں! دم کی قربانی صرف حدودِ حرم میں ہی کی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

ارشاد الساری: (ص: 125-126، ط: امدادیہ مکہ مکرمہ)
شرائط صحة الاحرام ۔۔۔والنیة والذکر (والاولی ان یقول والتلبیة او ما یقوم مقامھا من الذکر) ۔۔۔۔حتی لو نوی ولم یلب لا یصیر محرما

حاشية الدسوقي علي الشرح الكبير: (57/2، ط: دار الفکر)
” (قوله: وجاز إبدال ثوبه) أي ‌جاز للمحرم أن يبدل ثوبه الذي أحرم فيه بغيره سواء كان الثوب إزارا أو رداء“

الفتاوى الهندية: (1/ 255، ط:دار الفكر)
"المحصر من أحرم ثم منع عن مضي في موجب الإحرام سواء كان المنع من العدو أو المرض أو الحبس أو الكسر أو القرح أو غيرها من الموانع من إتمام ما أحرم به حقيقة أو شرعا وهذا قول أصحابنا رحمهم الله تعالى ... (وأما حكم الإحصار) فهو أن يبعث بالهدي أو بثمنه ليشتري به هديا ويذبح عنه وما لم يذبح؛ لايحل وهو قول عامة العلماء سواء شرط عند الإحرام الإهلال بغير ذبح عند الإحصار أو لم يشترط، ويجب أن يواعد يومًا معلومًا يذبح عنه فيحل بعد الذبح ولايحل قبله حتى لو فعل شيئًا من محظورات الإحرام قبل ذبح الهدي يجب عليه ما يجب على المحرم إذا لم يكن محصرًا، وأما الحلق فليس بشرط للتحلل في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - وإن حلق فحسن، كذا في البدائع ...ثم إذا تحلل المحصر بالهدي وكان مفردا بالحج؛ فعليه حجة وعمرة من قابل، وإن كان مفردًا بالعمرة؛ فعليه عمرة مكانها وإن كان قارنا فإنما يتحلل بذبح هديين وعليه عمرتان وحجة، كذا في المحيط."

فتح القدير للكمال ابن الهمام: (3/ 78)
"(والهدي لا يذبح إلا بمكة) لقوله تعالى {هديا بالغ الكعبة} [المائدة: 95] (ويجوز الإطعام في غيرها) خلافا للشافعي -رحمه الله -. هو يعتبره بالهدي والجامع التوسعة على سكان الحرم، ونحن نقول: الهدي قربة غير معقولة فيختص بمكان أو زمان. أما الصدقة قربة معقولة في كل زمان ومكان.
(قوله: ونحن نقول إلخ) وذلك أنه لما عين الهدي أحد الواجبات علم أنه ليس المراد مجرد التصدق باللحم وإلا لحصل التصدق بالقيمة أو بلحم يشتريه، بل المراد التقرب بالإراقة مع التصدق بلحم القربان، وهو تبع متمم لمقصوده فلا ينعدم الإجزاء بفواته عن ضرورة، فلذا لو سرق بعد الإراقة أجزأه، بخلاف ما لو سرق قبلها أو ذبح بالكوفة فسرق لا يجزيه؛ لأن القربة هناك لا تحصل إلا بالتصدق لاختصاص قربة الإراقة بمكان مخصوص أعني الحرم."

فقہ العبادات علی المذہب الحنفی:(كتاب الحج، الباب السابع الجنايات، ص: 202)
"ولا يصح ذبح ‌دم الجزاء إلا ‌في ‌الحرم لأنه لا يعتبر قربة إلا في مكان مخصوص لقوله تعالى: {هدياً بالغ الكعبة} (7) . أما ‌دم ‌التمتع والقران فيختصان بالزمان وهو أيام النحر الثلاثة والمكان وهو الحرم.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Hajj (Pilgrimage) & Umrah