سوال:
کوئی شخص اپنے والد کی طرف سے حج بدل کر سکتا ہے؟ یاد رہے کہ انہوں نے وصیت نہیں کی اور بیٹا اپنا حج کرچکا ہے۔
جواب: صورت مسئولہ میں والد نے اپنی طرف سے حج کرانے کی کوئی وصیت نہیں کی ہے تو ان کی طرف سے حج بدل کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر اولاد مرحوم کی طرف سے بطور تبرع(احسان) حج کرلے تو جائز ہے اور اس کا ثواب والد کو پہنچے گا، اور کرنے والے کو ثواب بھی ملے گا، ان شاء اﷲ تعالی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (258/1، ط: دار الفکر)
(الباب الخامس عشر في الوصية بالحج) من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - وإن مات عن وصية لا يسقط الحج عنه وإذا حج عنه يجوز عندنا باستجماع شرائط الجواز وهي نية الحج وأن يكون الحج بمال الموصي أو بأكثره لا تطوعا وأن يكون راكبا لا ماشيا ويحج عنه من ثلث ماله سواء قيد الوصية بالثلث بأن أوصى أن يحج عنه بثلث ماله أو أطلق بأن أوصى بأن يحج عنه هكذا في البدائع
غنیۃ الناسک: (باب الحج عن الغیر، ص: 337، ط: ادارۃ القرآن)
ثم الصحیح من المذھب فیمن یحج عن غیرہ ان اصل الحج یقع عن المحجوج عنہ فرضا کان او نفلا
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی