سوال:
میری بہن کچھ عرصہ قبل فیملی کے ساتھ عمرہ کرنے گئی تھیں۔ اس دوران وہ حاملہ تھیں۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد مدینہ چلی گئیں۔ وہاں جا کر ان کی طبیعت اتنی بگڑی کہ ہسپتال میں داخل کرنا پڑا اور ڈاکٹر نے مزید عمرہ کرنے سے منع بھی کیا۔ کچھ دن میں طبیعت بہتر ہوئی مگر چلنا پھرنا مشکل تھا وہیل چیئر استعمال کرتی تھیں۔ پھر مدینہ سے واپسی پر انہوں نے دوبارہ عمرے کا ارادہ کیا چونکہ باقی لوگوں نے بھی عمرہ کرنا تھا، پھر سب کے ساتھ مدینہ سے میقات روانہ ہوئیں اور وہاں پہنچ کر ارادہ بدل دیا اور پھر مسجد ذوالحلیفہ پہنچ کر نفل ادا کیے، اس کے بعد طبیعت پھر بگڑ گئی اور وہاں سے مکہ ہوٹل چلی گئیں اور واپسی میں طواف وداع کرلیا۔
اب اس صورت میں کیا ان پر عمرہ کی قضاء لازم ہے؟ اور اگر لازم ہے تو کوئی اور ان کے بدلے کرسکتا ہے؟ اگر کوئی اور نہیں کر سکتا اور خود بھی نہ کرسکتیں تو اس کا کیا معاملہ ہوگا؟
تنقیح:
محترم اس بات کی وضاحت کردیں کہ مدینہ سے واپسی پر ارادہ بدلنے سے کیا مراد ہے؟ کیا انہوں نے دوبارہ عمرے کے لیے سرے سے احرام ہی نہیں باندھا تھا؟ بغیر عمرے کے وطن واپس آگئی ہے؟
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
ارادہ بدلنے سے مراد یہ ہے کہ ان کو اپنی طبیعت بہتر نہیں لگی اس لیے عمرہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا
جواب: صورت مذکورہ میں مدینہ سے مکہ مکرمہ واپسی پر میقات سے احرام باندھنا اور عمرہ کرنا آپ کی بہن پر لازم تھا۔ میقات سے عمرہ کے ارادہ کے بغیر داخلے کے باوجود بھی ( طبعیت میں کچھ بہتری آنے کے بعد ) اگر کسی قریبی میقات سے عمرے کا احرام باندھ کر عمرہ کرتی تو یہ بھی کافی ہوتا، لیکن چونکہ وہ مدینہ سے واپسی پر مکہ مکرمہ میں بغیر احرام کے داخل ہوگئی ہے، اور پھر دوبارہ کسی میقات سے عمرہ کے لیے احرام بھی نہیں باندھا ہے، بلکہ عمرہ کیے بغیر اسی طرح سے واپس لوٹ گئی ہے، جس کی وجہ سے ایک دم یعنی بکری وغیرہ کی قربانی اور ایک عمرہ کی قضاء ان پر لازم ہوگئی ہے۔
لہذا اب ان پر لازم ہے کہ حدود حرم میں خود یا وکیل کے ذریعے دم ادا کرے، اور ساتھ ہی اس عمرے کی ادائیگی کا جلد سے جلد اہتمام کرے، اگر مالی استطاعت نہ ہونے کی وجہ وہ عمرہ کی ادائیگی سے قاصر ہے تو اولاً انتظار کرلے، شاید زندگی میں کسی وقت اللہ تعالیٰ مالی وسعت دیدے تو عمرہ کی قضاء کرلے۔ اگر بالفرض زندگی میں مالی اعتبار سے استطاعت حاصل نہ ہو تو وفات سے پہلے وصیت کردے کہ ان کے ترکہ سے عمرہ کی قضاء کروائی جائے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ وصیت کل ترکہ کے تہائی مال سے پوری کی جائے گی۔ اگر تہائی مال سے اپنے وطن سے عمرہ کروانے کا خرچ پورا نہ ہوسکتا ہو تو جہاں سے عمرہ کا خرچ پورا ہوسکتا ہو، وہاں سے کروادیا جائے، یعنی اگر جدہ سے عمرہ ہوسکتا ہو تو وہاں سے ورنہ مکہ مکرمہ سے ہی کسی شخص کو رقم دے کر عمرہ کروا دیا جائے۔ اگر وہ وصیت بھی نہ کرے، تب بھی کوئی اپنی طرف سے ان کے بدلے عمرہ کردے تو ان کا عمرہ ادا ہوجائے گا، اور ان کو ثواب پہنچ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (221/1، ط: دار الفكر)
ومن جاوز ميقاته غير محرم ثم أتى ميقاتا آخر فأحرم منه أجزأه إلا أن إحرامه من ميقاته أفضل، كذا في الجوهرة النيرة، وهذا في غير أهل المدينة لأن أهل المدينة أخص بوقته، كذا في السراج الوهاج.
البحر العمیق: (ص: 662، ط: المكتبة المكية)
"وإذا جازو المحرم أحد المواقیت علی الوجه الذي ذکرنا ودخل مکة بغیر إحرام فعلیه حجة أو عمرة قضاء ما علیه ودم لترک الوقت۔"
رد المحتار: (458/2، ط: دار الفكر)
شروط الأداء وهي التي إن وجدت بتمامها مع شروط الوجوب، وجب أداؤه بنفسه، وإن فقد بعضها مع تحقق شروط الوجوب، فلا يجب الأداء بل عليه الإحجاج أو الإيصاء عند الموت وهي خمسة: سلامة البدن، وأمن الطريق وعدم الحبس، والمحرم أو الزوج للمرأة وعدم العدة لها.
الفتاوی الهندية: (258/1، ط: دار الفكر)
من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - وإن مات عن وصية لا يسقط الحج عنه وإذا حج عنه يجوز عندنا باستجماع شرائط الجواز وهي نية الحج وأن يكون الحج بمال الموصي أو بأكثره لا تطوعا وأن يكون راكبا لا ماشيا ويحج عنه من ثلث ماله سواء قيد الوصية بالثلث بأن أوصى أن يحج عنه بثلث ماله أو أطلق بأن أوصى بأن يحج عنه هكذا في البدائع فإن لم يبين مكانا يحج عنه من وطنه عند علمائنا، وهذا إذا كان ثلث ماله يكفي للحج من وطنه فأما إذا كان لا يكفي لذلك فإنه يحج عنه من حيث يمكن الإحجاج عنه بثلث ماله، كذا في المحيط.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (328/30، ط: دار السلاسل الكويت)
ذهب الفقهاء في الجملة إلى أنه يجوز أداء العمرة عن الغير؛ لأن العمرة كالحج تجوز النيابة فيها؛ لأن كلا من الحج والعمرة عبادة بدنية مالية ولهم في ذلك تفصيل:
ذهب الحنفية إلى أنه يجوز أداء العمرة عن الغير بأمره؛ لأن جوازها بطريق النيابة، والنيابة لا تثبت إلا بالأمر، فلو أمره أن يعتمر فأحرم بالعمرة واعتمر جاز؛ لأنه فعل ما أمر به.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی