سوال:
ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والدین فوت ہو چکے ہیں۔ والد صاحب نے یہ مکان خریدا تھا جس میں ہم رہ رہے ہیں، بہنیں شادی شدہ ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ کرائے کے مکانوں میں رہ رہی ہیں۔ ایک بہن اور دو بھائی بھی فوت ہو چکے ہیں، ان کی اولادیں ہیں۔ جو دو بہنیں زندہ ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ مکان بیچ کر ان کو ان کا حصہ دیا جائے، بھائی بھی اس بات سے متفق ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ریٹ بہت کم ہے، پہلے علاقے میں پراپرٹی کا ریٹ اچھا تھا، لیکن اب فی مرلہ ریٹ بہت کم ہو چکا ہے، بھائیوں کے پاس بھی یہی ایک گھر ہے جو بیچنے سے سب کرائے کے گھروں میں چلے جانے پر مجبور ہو جائیں گے، اب بہنوں کی بات مانی جائے یا ریٹ بڑھنے کا انتظار کیا جائے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ شریعت میں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں جلدی کا حکم دیا گیا ہے، چونکہ میراث میں بہت سے لوگوں کے حقوق متعلق ہوجاتے ہیں، اس لیے بغیر کسی عذر کے میراث تقسیم کرنے میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ بسا اوقات میراث بروقت تقسیم نہ کرنے پر مستقبل میں بہت سے مسائل جنم لے لیتے ہیں، مثلا: آپس میں بدگمان ہوجانا، وقت اور حالات کے ساتھ نیتوں کا بدل جانا، قریبی رشتہ داروں مثلاً بہن بھائیوں کا آپس میں قطع تعلقی پیدا ہوجانا وغیرہ۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں خاص طور پر جب بہنیں میراث کی تقسیم کا مطالبہ بھی کررہی ہیں، بھائیوں کو چاہیے کہ جتنی جلدی ہو سکے اپنے والدین کی میراث کو ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم کردیں اور ریٹ کے مزید بڑھنے کا انتظار نہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (كتاب القسمة، 260/6، ط: دار الفکر)
"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی