عنوان: نصاب کی مقدار سے کم سونے کے زیور پر زکوٰۃ کا حکم(10947-No)

سوال: میں نے اپنی بھانجی کو تحفے کے طور پر سونا دے دیا ہے، اب اس کی زکوۃ کس کے ذمے ہوگی؟ بچی ابھی پڑھ رہی ہے اور صاحب نصاب نہیں ہے۔
تنقیح:
اس سوال کے جواب کے لیے یہ وضاحت درکار ہے کہ جس بھانجی کو آپ نے سونا گفٹ دیا ہے وہ بالغ ہے یا نابالغ؟ اور گفٹ پر بذات خود بھانجی نے قبضہ کیا تھا یا اس نے والدین کے واسطہ سے قبضہ کیا تھا؟ نیز صاحبِ نصاب نہ ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ ان امور کی وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
مفتی صاحب! وہ بالغ ہے اور پڑھ رہی ہے، اس کو میرے جھمکے بہت پسند تھے اس لیے میں نے اس کو گفٹ کر دیے ہیں اور اس کے پاس سات تولہ سونا بھی نہیں ہے۔ اس لیے میں نے پوچھا تھا کہ کیا میں اس کو وہ گفٹ کردوں اور اب اس کی زکوۃ میں تو ادا نہیں کروں گی نا؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کی بھانجی کی ملکیت میں صرف ساڑھے سات تولہ سونے سے کم مقدار کا زیور ہو، اور اس کے ساتھ چاندی، نقد روپیہ یا مالِ تجارت نہ ہو تو چونکہ یہ سونے کا مکمل نصاب نہیں ہے، اس لیے سونے کے ان زیورات پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
البتہ اگر سونے کے زیورات کے ساتھ ضرورت سے زائد نقد رقم موجود ہو، (خواہ وہ معمولی ہو) یا کچھ چاندی یا مالِ تجارت ہو تو زکوۃ واجب ہونے کے لیے سونے کا پورے ساڑھے سات تولہ ہونا ضروری نہیں، بلکہ اگر مذکورہ اموال کی مجموعی طور پر کل مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو تو زکوۃ کا نصاب مکمل ہوجائے گا، اور سال گزرنے پر کل مال میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا آپ کی بھانجی پر لازم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (295/2، ط: سعید)
نصاب الذہب عشرون مثقالاً فما دون ذٰلک لا زکاۃ فیہ، ولو کان نقصاناً یسیرا.

بدائع الصنائع: (18/2، ط: دار الكتب العلمية)
فأما إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم «والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر» وكان الدينار على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مقوما بعشرة دراهم.
وروي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال لعلي: «ليس عليك في الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال.

ایضا: (19/2، ط: دار الکتب العلمیة)
"فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا .... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة؛ و لأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
و أما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر."

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 456 Aug 28, 2023
nisab ki miqdar se / say kum /cum soney / sone / gold k zewar per zakat ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.