سوال:
ایک شخص عمر فاروق کا انتقال 29 جنوری کو ہوا اور اس کے 7 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں اور چند ماہ بعد اس کی اہلیہ سائرہ بانو بھی اگست کو انتقال کر گئیں۔ پھر دو ماہ کے بعد ان کی ایک بیٹی کا بھی انتقال ہوگیا اور اس بیٹی کے تین بچے ہیں (دو بیٹے اور ایک بیٹی) اور شوہر ہے۔ اب مجھے بتائیے کہ وراثت کے اسلامی قوانین کے مطابق ہر ایک کی تقسیم کا عمل کیا ہے؟
جواب: مرحومین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو سات سو بیس (720) حصوں میں تقسیم یا جائے گا، جس میں سے عمر فاروق کے ساتوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو اسی (80)، تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو چالیس (40)، مرحومہ بیٹی کے شوہر کو دس (10)، دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو بارہ (12) اور بیٹی کو چھ (6) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو عمر فاروق کے ہر ایک بیٹے کو %11.111 فیصد حصہ، تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو %5.555 فیصد حصہ، مرحومہ بیٹی کے شوہر کو %1.388 فیصد حصہ، دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو %1.666 فیصد حصہ، اور بیٹی کو %0.833 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (801/6، ط: دار الفکر)
فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية)....الخ
المبسوط للسرخسی: (55/30، ط: دار المعرفة)
وإذا مات الرجل ولم تقسم تركته بين ورثته حتى مات بعض ورثته فالحال لا يخلو إما أن يكون ورثة الميت الثاني ورثة الميت الأول فقط أو يكون في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول۔۔۔۔۔وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت فإنه تقسم تركة الميت الأول أولا لتبين نصيب الثاني، ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی