سوال:
میری بیٹی مسمات۔۔۔۔کی شادی/نکاح 3 سال پہلے مسمی۔۔۔۔۔ بعوض حق مہر مبلغ /=160000(ایک لاکھ ساٹھ ہزار) روپے زیورات کی شکل میں طے پایا تھا جو کہ ادا ہوا، لیکن وہ بیٹی کے سسرال کے پاس ہے، ازدواجی زندگی میں ایک بیٹی کی ولادت بھی ہوئی۔ کچھ عرصے بعد میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی اور ناچاکی کی وجہ سے گزشتہ ایک سال ایک ماہ سے میری بیٹی اپنی بچی کے ساتھ میرے پاس ہے، اس عرصے میں دونوں کی کفالت میں نے کی ہے، اس عرصہ میں صلح کی کوششیں جب ناکام ہوئی تو دونوں فریقین کے خاندان کے بزرگوں کی باہمی رضامندی سے علیحدگی یعنی طلاق کا فیصلہ ہوا ہے۔
اس سلسلہ میں میرا سوال یہ ہے کہ حق مہر جو کہ زیورات کی صورت میں ہے، کیا وہ سسر والے واپس دیں گے؟ نیز جہیز اور دیگر سامان جو ہم نے اپنی بچی کو دیا تھا، اس کو واپس لے سکتے ہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ زیورات آپ کی بیٹی کو سسرال والوں کی طرف سے حقِ مہر کے طور پر دئیے گئے تھے تو یہ آپ کی بیٹی کا حق ہے، لہذا سسرال والوں کے لیے یہ زیورات آپ کی بیٹی کو واپس کرنا ضروری ہے۔ نیز جو سامان جہیز وغیرہ کی صورت میں آپ لوگوں کی طرف سے بیٹی کو دیا گیا تھا، وہ چونکہ بیٹی کا حق ہے، لہذا وہ سامان واپس لینا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (103/3، ط: دار الفكر)
و يتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما) أو تزوج ثانيا في العدة أو إزالة بكارتها بنحو حجر بخلاف إزالتها بدفعة فإنه يجب النصف بطلاق قبل وطء ولو الدفع من أجنبي، فعلى الأجنبي أيضا نصف مهر مثلها إن طلقت قبل الدخول وإلا فكله نهر بحثا.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی