سوال:
مفتی صاحب! اگر کوئی شخص شراب کے نشے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور ٹھیک ہونے کے بعد کہے کہ میں نے نہیں دی ہے تو کیا اس صورت میں طلاق ہو جائے گی اور کیا اب رجوع ہو سکتا ہے؟
تنقیح:اس نے کتنی طلاقیں دیں، طلاق دینے کا گواہ کون ہے؟
جواب تنقیح:تین طلاقیں دی ہیں اور طلاق دینے کی گواہی گھر والے دے رہے ہیں.
جواب: واضح رہے کہ نشے کی حالت میں دی گئی طلاق بھی شرعاً واقع ہو جاتی ہے، لہذا پوچھے گئی صورت میں مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی ہے، اب رجوع اور تجدید نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع ردالمحتار: (كتاب الطلاق، مطلب طلاق الدور، 235/3، ط: سعید)
(ويقع الطلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا او مكرها) فإن طلاقه صحيح.
(قوله ليدخل السكران) اي فإنه في حكم العاقل زجرا له، فلامنافاة بين قوله عاقل وقوله الآني او السكران.
بدائع الصنائع: (كتاب الطلاق، فصل في شرائط الركن، 217/4، ط: رشيديه)
فتاوى عثمانيه: (كتاب الطلاق، نشے کی حالت میں طلاق، 49/6، ط: العصر اکیڈمی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی