سوال:
آج کل ہمارے شہر رحیم یار خان میں پکی اینٹ کے بھٹہ والے لوگوں سے اگست کے مہینے میں پیسے لیتے ہیں اور چار ماہ بعد ان کو طے شدہ شرائط و قیمت کے مطابق اینٹ دیتے ہیں، لوگ اس لئے پیشگی پیسے دیتے ہیں کہ اس میں فی ہزار اینٹ میں دو سے تین ہزار کا فائدہ ہوتا ہے بعض لوگ تو اینٹ وصول کرتے ہیں اور اگے فروخت کر دیتے ہیں اور بعض لوگ اس وقت کی قیمت پر بھٹہ والوں کو ہی فروخت کردیتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر اینٹوں کی طے شدہ ساری قیمت شروع میں پیشگی ادا کردی جائے، اور طے شدہ مدت کے بعد مطلوبہ معیار و مقدار کے مطابق اینٹیں گاہک کو دیدی جائیں، تو یہ صورت فقہی لحاظ سے "استصناع" (آرڈر پر کوئی چیز تیار کروانا) کہلاتی ہے، جوکہ جائز ہے، بشرطیکہ اس کے ناجائز ہونے کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔
واضح رہے کہ مذکورہ صورت میں اینٹیں خریدنے کے بعد اسی بھٹہ والوں کو وہ اینٹیں زیادہ قیمت پر فروخت کرنا سود حاصل کرنے کا ایک حیلہ اور ذریعہ بن سکتا ہے، اس لئے ایسا کرنا "سد ذریعہ" کے طور پر ممنوع ہوگا، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے، البتہ اگر اسی بھٹہ والوں کو دوبارہ اینٹیں فروخت کرنا پہلے سے طے شد نہ ہو، بلکہ اتفاقی طور پر اس کی صورت پیش آجائے، یا مارکیٹ میں اینٹوں کی قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے بھٹہ والوں کو زیادہ قیمت پر وہ اینٹیں دوبارہ فروخت کردی جائیں تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ التاتارخانیة: (400/9، ط: زکریا)
یجب أن یعلم بأن الاستصناع جائز في کل ما جری التعامل فیه
شرح المجلة: (المادة: 388)
اذا قال رجل لواحد من أہل الصنائع إصنع لي الشیئ الفلاني بکذا قرشاً وقبل الصانع ذٰلك انعقد البیع استصناعاً مثلاً تقاول مع نجارٍ علی أن یصنع لہ زروقاً أو سفینۃً وبین طولہا وعرضہا وأوصافہا اللازمة وقبل النجار انعقد الاستصناع
بدائع الصنائع: (198/5، ط: دار الکتب العلمیة)
"(ومنها) الخلو من شبهة الربا لأن الشبهة ملحقة بالحقيقة في باب الحرمات احتياطا… وعلى هذا يخرج ما إذا باع رجل شيئا نقدا أو نسيئة، وقبضه المشتري ولم ينقد ثمنه - أنه لا يجوز لبائعه أن يشتريه من مشتريه بأقل من ثمنه الذي باعه منه عندنا، وعند الشافعي - رحمه الله - يجوز… ولو خرج المبيع من ملك المشتري فاشتراه البائع من المالك الثاني بأقل مما باعه قبل نقد الثمن - جاز؛ لأن اختلاف الملك بمنزلة اختلاف العين فيمنع تحقق الربا
و فیه أيضا: (199/5)
ولو اشترى ما باع بمثل ما باع قبل نقد الثمن جاز بالإجماع لانعدام الشبهة، وكذا لو اشتراه بأكثر مما باع قبل نقد الثمن
کذا فی تبویب فتاویٰ دار العلوم کراتشي: رقم الفتوی: 6/2145
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی