سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ میرے نانا نے حق مہر میں نانی کے نام اپنا گھر لکھ دیا تھا اور کچھ سالوں بعد نانی نے وصیت کی کہ ان کا گھر ان کی چار بیٹیوں میں تقسیم کیا جائے اور وصیت کے مطابق نانی کے بیٹے کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، مجھے آپ بتا دیں کہ کیا ماموں کا اس گھر میں حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ ماموں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔
جواب: واضح رہے کہ وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کا حصہ مقرر کردیا ہے، لہٰذا اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔" (سنن ترمذی، حدیث نمبر:2121)
پوچھی گئی صورت میں آپ کی نانی کی اپنی بیٹیوں کے حق میں کی گئی وصیت باطل ہے، لہذا ان کا میراث میں چھوڑا ہوا گھر ان کے تمام شرعی ورثاء (جن میں ان کے بیٹے بھی شامل ہیں) میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 2121، ط: دار الغرب الاسلامی)
عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ عَلَى نَاقَتِهِ، وَأَنَا تَحْتَ جِرَانِهَا، وَهِيَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا، وَإِنَّ لُعَابَهَا يَسِيلُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، وَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ۔۔۔الخ
الهداية: (514/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال: "ولا تجوز لوارثه" لقوله عليه الصلاة والسلام: "إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث" ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه، ويعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية لأنه تمليك مضاف إلى ما بعد الموت، وحكمه يثبت بعد الموت.
بدائع الصنائع: (338/7، ط: دار الكتب العلمية)
ولو أوصى لبعض ورثته، فأجاز الباقون؛ جازت الوصية؛ لأن امتناع الجواز كان لحقهم لما يلحقهم من الأذى والوحشة بإيثار البعض، ولا يوجد ذلك عند الإجازة، وفي بعض الروايات عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» ، ولو أوصى بثلث ماله لبعض ورثته ولأجنبي، فإن أجاز بقية الورثة؛ جازت الوصية لهما جميعا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی