سوال:
مفتی صاحب! جب میت کو جنازہ گاہ لے کر جاتے ہیں تو کندھوں پر لے جاتے ہیں تو نماز جنازہ کے بعد جنازہ گاہ سے قبرتک لے جانے کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟ اگر حوالے میں حدیث مبارکہ بھی ہو تو نوازش ہوگی۔
جواب: واضح رہے کہ حدیث مبارکہ میں میت کو تیز قدم کے ساتھ قبرستان لے جانے کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جنازے کو تیز لے جایا کرو، اگروہ نیک ہے تو اس کے لیے خیر ہے جہاں تم اسے پہنچا دو گے ،اگر اس کے سوا دوسری صورت ہے (یعنی جنازہ نیک کا نہیں )تو ایک برا بوجھ ہے جو تم اپنے کندھوں سے اتارو گے، اسی طرح بعض احادیث میں میت کو کندھا دینے کی فضیلت بھی وارد ہوئی ہے۔
میت کو قبرستان لے جانے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ اگر میت بچہ ہو تو اسے ہاتھوں میں اٹھا کر لے جائیں، اگر میت کوئی بڑا ہو تو میت کو کسی چارپائی وغیرہ پر لٹایا جائے پھر چارپائی کو کندھوں پر اٹھا کر قبرستان تک پیدل لے جائیں ،کیونکہ بلا عذر میت کو سواری وغیرہ پر لے جانے کو فقہائے کرام نے مکروہ لکھا ہے، البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلا: قبرستان دور ہو تو پھر ایسی صورت میں سواری وغیرہ پر لے جانا بھی جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري :(باب السرعة بالجنازة،حدیث:1351،ط:طوق النجاۃ)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا، وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ ".
فتاوی هندیة:(فی الجنائز ،342/1،ط: رشیدیة)
ﻭﺫﻛﺮ اﻹﺳﺒﻴﺠﺎﺑﻲ ﺃﻥ اﻟﺼﺒﻲ اﻟﺮﺿﻴﻊ ﺃﻭ اﻟﻔﻄﻴﻢ ﺃﻭ ﻓﻮﻕ ﺫﻟﻚ ﻗﻠﻴﻼ ﺇﺫا ﻣﺎﺕ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ ﺑﺄﻥ ﻳﺤﻤﻠﻪ ﺭﺟﻞ ﻭاﺣﺪ ﻋﻠﻰ ﻳﺪﻳﻪ ﻭﻳﺘﺪاﻭﻟﻪ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﺎﻟﺤﻤﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﻳﺪﻳﻬﻢ ﻭﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﺄﻥ ﻳﺤﻤﻠﻪ ﻋﻠﻰ ﻳﺪﻳﻪ ﻭﻫﻮ ﺭاﻛﺐ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻛﺒﻴﺮا ﻳﺤﻤﻞ ﻋﻠﻰ اﻟﺠﻨﺎﺯﺓ، ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ اﻟﺮاﺋﻖ.
احکام میت مع حاشیہ:(جنازہ لے جانے کا مسنون طریقہ،93،91،ط: الفاروق کراچی)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی