سوال:
میرے کام میں سفر بہت زیادہ ہے، میں دو شہروں میں ہفتے کے دو سے تین دن رہنا ہوتا ہے، دونوں شہروں میں کرایہ دیتا ہوں، شہروں میں فاصلہ 170 کلومیٹر کا ہے، کیا مجھے پوری نماز پرھنی ہوگی یا قصر؟ ایک شہر میں پانچ دن اور ایک شہر میں دو دن اکثر رہتا ہوں۔
تنقیح
محترم اس سوال کے جواب کے لیے درج ذیل امور کی وضاحت درکار ہے:
۱) مذکورہ دونوں شہروں میں کیا آپ کاروبار یا نوکری کی غرض سے جاتے ہیں؟
۲)مذکورہ دونوں شہروں میں سے آپ کا آبائی وطن کون سا ہے؟ اگر دونوں میں سے کوئی بھی شہر آبائی وطن نہیں ہے تو آپ کے آبائی وطن تک ان کا فاصلہ کتنا ہے؟
۳) کیا دونوں شہروں یا کسی ایک میں آپ نے اسی کام کے سلسلے میں کبھی پندرہ دن یا اس سے زیادہ رہنے کی نیت سے قیام کیا ہے؟
۴)کیا آپ نے وہاں کرائے پر گھر یا کوارٹر وغیرہ لیا ہوا ہے؟
ان امور کی نمبر وار وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
۱) نوکری کی غرض سے جاتا ہوں۔
۲) دونوں میں سے کوئی وطن نہیں ہے، وطن پاکستان ہے اور ملازمت یو اے ای (UAE) میں ہے۔
۳) کبھی کبھار پندر دن ہو جاتے ہیں، لیکن آخری دو مہینے سے ایک ہفتہ سے کم قیام رہتا ہے۔
۴) دونوں شہروں میں کرایہ دیتا ہوں، ایک شہر میں اپارٹمنٹ اور دوسرے شہر میں صرف اپارٹمنٹ کا کمرہ ہے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شہروں میں چونكہ آپ کی ملازمت ہے، اس لیے اگر ان میں کبھی پندرہ یا اس سے زائد دن کے قیام کی نیت سے آپ نے قیام کرلیا ہے تو یہ دونوں شہر آپ کے وطنِ اقامت بن گئے ہیں، لہٰذا جب تک ان دونوں شہروں میں آپ کی ملازمت ہے اس وقت تک آپ ان میں پوری نماز ادا کریں گے، چاہے آپ کا قیام وہاں ایک دو دن ہی کیوں نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (97/1، ط: دار الكتب العلمية)
وأما بيان ما يصير المسافر به مقيما: فالمسافر يصير مقيما بوجود الإقامة، والإقامة تثبت بأربعة أشياء: أحدها: صريح نية الإقامة وهو أن ينوي الإقامة خمسة عشر يوما في مكان واحد صالح للإقامة فلا بد من أربعة أشياء: نية الإقامة ونية مدة الإقامة، واتحاد المكان، وصلاحيته للإقامة.
و فیه أيضاً: (130/1، ط: دار الکتب العلمية)
(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی