سوال:
مفتی صاحب ! ہمارے دادا کے فوت ہونے کے بعد اس کی اولاد میں سے بھائیوں نے دادا کی جائیداد کو اپنے درمیان تقسیم کر دیا اور بہنوں کو اس میں سے ان کا حق نہیں دیا ، اس کے بعد دو بہنوں کا انتقال ہو گیا اور ایک بہن زندہ ہے ، تین بھائیوں میں سے ایک ہمارے والد صاحب ہیں ، ہمارے والد صاحب نے ہم بہن بھائیوں کے درمیان جائیداد کو تقسیم کر دیا ہے اور ہمارے والد صاحب ابھی بھی زندہ ہیں، ہمارے والد صاحب نے چونکہ اپنی بہنوں کو ان کا حق نہیں دیا تو اب ان بہنوں کے حق کا کیا حکم ہے ؟ یعنی ہماری پھوپھیوں کا حق ہمارے اوپر ہے یا نہیں ؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ میراث میں مردوں کی طرح عورتوں کا حق بھی شریعت مطہرہ نے مقرر کیا ہے، لہذا کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بہن کا حق میراث غصب کرے۔ نیز میراث میں وہ مال تقسیم کیا جائے گا جس میں دوسروں کا حق متعلق نہ ہو، لہذا جس مال کے ساتھ کسی دوسرے کا حق متعلق ہو تو وہ مال اصل مالک تک یا ان کے ورثاء تک پہنچانا ضروری ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب نے جو آپ بہن بھائیوں کے درمیان اپنی جائیداد تقسیم کر دی ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ کے حصے میں جس قدر میراث پھوپھیوں کی بنتی ہے، اتنی میراث ان پھوپھیوں کو یا ان کے ورثاء تک پہنچا دیں، اس صورت میں آپ پر ان کا یہ حق آپ کے ذمے سے ساقط ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
وقوله تعالی فی القران المجید: (سورہ النسآء، الایة: 7)
لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡه اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ﴿۷﴾
الدرالمختار مع رد المحتار: (کتاب الفرائض، 759/6، ط: سعید)
(ﻳﺒﺪﺃ ﻣﻦ ﺗﺮﻛﺔ اﻟﻤﻴﺖ اﻟﺨﺎﻟﻴﺔ ﻋﻦ ﺗﻌﻠﻖ ﺣﻖ اﻟﻐﻴﺮ ﺑﻌﻴﻨﻬﺎ ﻛﺎﻟﺮﻫﻦ ﻭاﻟﻌﺒﺪ اﻟﺠﺎﻧﻲ) ﻭاﻟﻤﺄﺫﻭﻥ اﻟﻤﺪﻳﻮﻥ ﻭاﻟﻤﺒﻴﻊ
(ﻗﻮﻟﻪ اﻟﺨﺎﻟﻴﺔ ﺇﻟﺦ) ﺻﻔﺔ ﻛﺎﺷﻔﺔ ﻷﻥ ﺗﺮﻛﻪ اﻟﻤﻴﺖ ﻣﻦ اﻷﻣﻮاﻝ ﺻﺎﻓﻴﺎ ﻋﻦ ﺗﻌﻠﻖ ﺣﻖ اﻟﻐﻴﺮ ﺑﻌﻴﻦ ﻣﻦ اﻷﻣﻮاﻝ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ ﺷﺮﻭﺡ اﻟﺴﺮاﺟﻴﺔ.
ردالمحتار: (مطلب فیمن ورث مالا حراما، 99/5، ط: سعید)
ﻭاﻟﺤﺎﺻﻞ ﺃﻧﻪ ﺇﻥ ﻋﻠﻢ ﺃﺭﺑﺎﺏ اﻷﻣﻮاﻝ ﻭﺟﺐ ﺭﺩﻩ ﻋﻠﻴﻬﻢ، ﻭﺇﻻ ﻓﺈﻥ ﻋﻠﻢ ﻋﻴﻦ اﻟﺤﺮاﻡ ﻻ ﻳﺤﻞ ﻟﻪ ﻭﻳﺘﺼﺪﻕ ﺑﻪ ﺑﻨﻴﺔ ﺻﺎﺣﺒﻪ.
بدائع الصنائع: کتاب الهبة، 96/8، 113، ط: رشیدية)
فتاوی رحیمیه: (کتاب المیراث، 902/3، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی