resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: بچوں کی دی ہوئی رقم سے بنے ہوئے مال و جائیداد کا حکم، نیز متروکہ رقم سے کیے ہوئے کاروبار سے حاصل ہونے والے نفع کا حکم (11016-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک شخص 2003 میں وفات پاتا ہے اس کے 6 بیٹے، ایک بیٹی اور بیوی ہے۔ وفات سے قبل وہ اپنے ایک بیٹے کو اپنی تجوری کی چابی دے دیتا ہے اور دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس وقت میت کی پاس ایک مکان، نقدی سونا وغیرہ ہوتے ہیں جس کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے، اس وقت ایک مکان زیر تعمیر ہوتا ہے، میت ایک ریٹارڈ retired شخص ہے جس کی اپنی کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے، پانچ بچے اپنی اپنی حیثیت میں والد کی ملکیت میں جمع کرواتے تھے، چھٹے نے ایک روپیہ بھی کبھی نہیں دیا، اسی رقم سے نیا مکان بنا، پرانا مکان بکا اور مکمل فیملی 2004 میں نئے مکان میں منتقل ہو گئی۔ چار  بھائیوں کے چند بچوں نے اسی مکان میں رہتے ہوئے تعلیم وغیرہ مکمل کی اور ان میں سے دو بچوں " عا " اور    "عز "  نے  2008 میں اپنا کاروبار شروع کیا، لیکن گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں دیا جب کہ طعام و قیام ایک ہی چھت کے نیچے تھا اور تعلیمی و دیگر اخراجات بھی گھر سے ادا ہوئے۔ غالب گمان یہی ہے کہ کاروبار کا ابتدائی سرمایہ بھی گھر سے ادا ہوا۔ اس وقت ان بچوں " عا " اور " عز " کے بھائی " ش " عم " اور " ار " زیر تعلیم تھے اور ایک ساتھ قیام و طعام تھا۔
گویا 5 بھائیوں کی شراکتی رقم ایک دوسرے کے اہل و عیال پر خرچ ہوتی تھی اور اس کا سارا ریکارڈ بھی 2011 تک موجود تھا۔ اس کے بعد واللہ اعلم
  2011 میں دو بھائی اپنے بچوں کی شادی وغیرہ کے لئے ایک نئے مکان میں شفٹ ہو گئے، جانے سے کچھ دن قبل 4 بھائیوں نے جو نقدی (cash) اس وقت تجوری میں تھی، دو بھائیوں کے علم میں لائے بغیر چار حصوں میں تقسیم کرلی، یعنی مشترکہ ترکہ میں اضافہ/ مشترکہ کاروبار میں اضافہ چار بھائیوں نے خفیہ طور پر بانٹ لیا، سارا ریکارڈ غائب یا تلف ہے۔  
 ابھی تک وراثت تقسیم نہیں ہوئی ہے اور مکان والد صاحب کے نام ہے۔ والدہ اور 2 بھائی والد صاحب کی وفات کے بعد 2010، 2015 اور 2018 میں فوت ہوچکے ہیں۔ بہن شرعی حصہ لے کر قانونی طور پر دستبردار ہوچکی ہے۔
 یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ 4 بھائیوں نے شراکتی رقم سے عمرہ اور حج ادا کئے، منگنی وغیرہ کیں اور کاریں خریدیں وغیرہ وغیرہ، لیکن دو بھائیوں سے نہ تو اجازت لی اور نہ ہی اعتماد لیا اور نہ ہی کچھ دیا، دو بھائی خاموش اس لئے تھے کہ ریکارڈ موجود ہے اور سارے ہی پڑھے لکھے افسر ہیں۔
اب 21 سال بعد وراثت کی تقسیم چاہتے ہیں اور اختلافات ہیں، آپ سے ذیل امور پر رہنمائی اور شرعی فتوی کی درخواست ہے۔
مکان کی تقسیم پر کسی بھی فرد کو کوئی اعتراض نہیں جو کیش رقم چار بھائی لے جا چکے ہیں اور اس کو اپنے اپنے استعمال میں اپنی اپنی ضروریات کے مطابق لا چکے ہیں، اب وہ چار بھائی اس رقم کو ایک بھائی کو واپس کرنا چاہتے ہیں جو میراث و مشترکہ شراکت داری میں حصہ مانگ رہا ہے، جس نے شراکت میں میت کی زندگی میں اور 2011 تک حصہ لیا ہے ، جس بھائی نے کبھی بھی کچھ نہیں دیا وہ کلیم بھی نہیں کر رہا اور چار دینا بھی نہیں چاہتے، لیکن اس بھائی کو والد کی وراثت میں حصہ سب بھائی دینے کو راضی ہیں۔ 
1) سوال یہ ہے کہ جو بھائی اپنا حق مانگ رہا ہے اور جس کو چار بھائی دینے کو اب راضی ہیں، ان کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ یہ کیش رقم اور دیگر حج، عمرہ، کار کے اخراجات 2024 کے ریٹ پر دیے جائیں نہ کہ 2011 کے ریٹ پر، کیا باقی دو بھائیوں کا یہ مطالبہ درست ہے؟
2) جو آمدنی بچوں کی کمپنی کو  2008 سے 2011 کے درمیان ہوئی ہے، اس آمدنی کو بھی شراکت کا حصہ بنایا جائے، کیا یہ بات بھی صحیح ہے؟
کیونکہ یہ عرف و عادت کا شرعی تقاضا ہے اور وہ سب بھی اسی مکان میں رہائش پزیر تھے اور کھانا پینا اسی شراکت سے تھا۔ بچوں کی کمپنی کا آغاز دو بچوں "ع " اور " عز" نے کیا جن کے والد " الف " اور " ر " ہیں، ان دونوں بچوں نے اپنے اپنے 3 بھائیوں" ش " " ع " اور " ار " کو اس کمپنی کا director بنایا اور مالی نفع پہنچایا، انہی دو بچوں نے اپنے والد صاحبان کے مشورہ سے ایک  چچا " اس" کے 3 بیٹوں "س " " ر " اور " م " کو بھی director بنایا اور نفع دیا، جبکہ انہی دو بچوں نے ایک اور چچا " م ت "  جو اپنا حصہ مانگ رہا ہے، اس کے دونوں بیٹوں " مع " اور " مج " کو نہ director بنایا اور نہ ہی مالی نفع دیا۔
کیا " مع " اور " مج " director اور مالی نفع کے تقسیم کے دن تک حقدار نہیں کیونکہ وراثت اور شراکت کی تقسیم ابھی تک نہی ہوئی ہے، کمپنی کا ابتدائی سرمایہ بھی مشترکہ تھا لیکن ریکارڈ سارا غائب ہے جو ان بھائیوں میں سے اس بھائی کے پاس تھا جس نے چار بھائیوں میں اشتراکی رقم تقسیم کی، یہ بھی نوٹ کیا جائے کہ جو چچا " م ت " شرعی حصہ مانگ رہا ہے، اس نے وراثت اور شراکت دونوں میں بھرپور حصہ کیا ہے ، جو وہ حلف پر کہنے کو تیار ہے ، لیکن دوسرے وارث ماننے کو تیار نہیں۔ براہ کرم ان دونوں مسئلوں کے بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔
تنقیح: محترم! آپ کے سوال میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں، براہ کرم مندرجہ ذیل باتوں کی وضاحت فرمائیں:
1) پانچوں لڑکے والد کو رقم گھر کا خرچ چلانے کے لیے دیتے تھے یا والد کے پاس رقم کس نیت سے جمع کرواتے تھے؟
2) پرانا مکان بیچ کر نیا مکان والد کی زندگی میں ہی لیا گیا تھا؟
3) دو بچوں " عا" اور   "عز"  نے  2008 میں اپنا کاروبار کس (ذاتی یا موروثی) رقم سے شروع کیا؟
4) پانچ بھائیوں کی شراکتی رقم سے کیا مراد ہے؟
5) 2011 میں دو بھائیوں نے نیا مکان کس رقم سے لیا ہے؟
جواب تنقیح:
( 1 ) ہم سب رقم ملکیت کے طور پر دیتے تھے اور اسی پر قائم ہیں، گو کہ والد صاحب ہمیشہ " امانت " کہا کرتے تھے، وہ انتہائی نیک انسان تھے۔
(2) پرانے مکان میں رہتے ہوئے نیا مکان 1999 میں خریدا تھا، جس کو گرا کر  2001 میں نئے سرے سے مکان بنانا شروع کیا جو والد صاحب کے انتقال کے وقت 2003 میں نامکمل تھا، 2004 میں والدہ سمیت سارے بھائی نئے مکان میں شفٹ ہوئے، پھر اس کے کچھ مہینوں بعد پرانا مکان بکا اور اس کی رقم وراثتی / شراکتی رقم میں شامل ہوئی اور اس ڈائری / کتاب میں درج کی گئی جو والد صاحب نے maintain کی ہوئی تھی، گویا موجودہ مکان میں وراثتی و شراکتی رقم شامل ہیں، اسی طرح سے 2011 تک کے تمام مالی معاملات mix up ہو گئے ہیں۔
(3) اس کا حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے، کیونکہ جس کتاب / ڈائری میں اس کا ممکنہ اندراج تھا جو والد صاحب کی ڈائری / کتاب کا تسلسل تھا، وہ تلف / ضائع ہو چکی ہے، وہ کتاب / ڈائری ایک بھائی / وارث " یا " کے پاس تھی، جس نے 4 بھائیوں کے ساتھ مل کر 2011 میں بچ جانے والی رقم تقسیم کی، اس رقم کو ہم پول منی / شراکتی رقم کہتے ہیں، اس بھائی " یا " کا 2018 میں انتقال ہو چکا ہے، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ " عا " اور " عز " نے تعلیم مکمل کرنے کے فوری بعد اپنا کاروبار شروع کردیا تھا، اس لئے یہ ممکن ہی نہی کہ ان کے پاس کام شروع کرنے کا ابتدائی سرمایہ ہوتا، نہ تو انہوں نے کسی سے قرض لیا اور نہ ہی ان دونوں  کے والد صاحبان کے پاس تنخواہ کے علاوہ اور کوئی ذرائع آمدن تھے، تنخواہ کی ایک خاص رقم " یا " کے پاس جمع ہوتی تھی اور اس رقم کے جمع کرنے کے بعد ان کے والد صاحبان کے پاس اتنی بچت نا ممکن تھی، مگر ریکارڈ تلف / ضائع ہو چکا۔
(4) شراکتی رقم   19 اکتوبر 2003 میں والد صاحب کے انتقال کے بعد آمدن و خرچ کا نظام وہی رہا، تحریری معاہدہ کوئی بھی نہی تھا مگر یہ طے تھا کہ سارا پیسہ گھر کا پیسہ اور سارے نوکری پیشہ تھے، لہذا وراثتی رقم / مال میں بھائیوں کی آمدنی شامل ہوتی رہی، جسے ہم نے پول منی / شراکتی رقم کا نام دیا جو آخر میں 2011 میں 4 بھائیوں نے تقسیم کی، جس کا انکشاف " م ت " کو پہلی بار 2022 میں ہوا ، جب وراثت کی شرعی تقسیم کی بحث شروع ہوئی۔
(5) دو بھائیوں نے 2011 میں نیا مکان شراکتی رقم سے خریدا، کسی نے کم کسی نے زیادہ رقم دی اور جس میں سب برابر کے قانونی حصہ دار بنے۔

جواب: 1) واضح رہے کہ جب بچے اپنے والد کے ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہ رہے ہوں اور اپنی آمدنی لا کر ملکیتاً والد صاحب کو دیتے ہوں تو والد صاحب اس رقم کے مالک بن جاتے ہیں، پوچھی گئی صورت میں چونکہ لڑکے ملکیتاً والد صاحب کو پیسے دیتے تھے، لہذا اس رقم کے مالک والد تھے اور اس رقم سے جو والد نے مکان خریدا، اس مکان کے بھی مالک والد ہی تھے جو ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء (بیوی، بیٹی اور بیٹوں) میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا، البتہ والد صاحب کے انتقال کے بعد بھائیوں نے اپنی سیلری کی جو رقم بغیر ملکیتاً جمع کروائی ہو تو اس رقم سے بنائے گئے مال و جائیداد میں سب بھائی اپنی اپنی رقم کے تناسب سے مالک ہوں گے۔
چار بھائیوں کا والد مرحوم کے متروکہ مال و جائیداد کو آپس میں بانٹ لینا اور باقی دو بھائیوں کو کچھ نہ دینا شرعاً ناجائز اور غیر شرعی تقسیم ہے، لہذا باقی چاروں بھائیوں پر لازم ہے کہ باقی دو بھائیوں کو بھی ان کا شرعی حصہ دیں، ورنہ آخرت میں دینا ہوگا۔
نیز چار بھائیوں نے والد مرحوم کی جتنی متروکہ رقم حج، عمرہ، منگنی اور کاریں خریدنے پر خرچ کی ہے، اپنے شرعی حصے کے علاوہ باقی رقم ان پر قرض ہے، چاروں بھائیوں پر لازم ہے کہ اپنے حصوں کے علاوہ زائد لی ہوئی رقم باقی دو بھائیوں کو ان کے شرعی حصے کے مطابق ادا کریں۔
نوٹ: سوال میں لکھا ہے کہ "بہن شرعی حصہ لے کر قانونی طور پر دستبردار ہوچکی ہے" اگر واقعتاً بہن کو اس کا شرعی حصہ دے دیا ہے تو اب والد کی میراث میں بیٹی کا کوئی حق نہیں ہوگا، البتہ والدہ (بیوی) کا انتقال چونکہ والد (شوہر) کے بعد ہوا ہے، اس لیے مرحومہ کو اپنے شوہر کی میراث سے ملنے والا حصہ بیٹی اور بیٹوں میں ان کے شرعی حصے کے مطابق تقسیم ہوگا۔
2) اگر "دو بچوں "عا" اور  "عز"  نے  2008 میں کاروبار ذاتی رقم (چاہے قرض لے کر شروع کیا ہو یا اپنی جمع پونجی) سے شروع کیا ہے تو اس کاروبار اور اس کے نفع کے یہ دونوں بچے ہی مالک ہوں گے اور اگر دونوں بچوں نے وراثتی/شراکتی رقم سے کاروبار ورثاء/شرکاء کی صراحتاً یا دلالتاً اجازت کے بغیر شروع کیا ہے تو اس پر ہونے والے منافع کے مالک یہ دونوں بچے ہوں گے، البتہ یہ منافع ان کے لیے حلال نہیں ہے، لہذا اس کا صدقہ کرنا واجب ہے، چونکہ پوچھی گئی صورت میں مالک (ورثاء) معلوم ہیں، اس لیے ان کے حصے کا نفع ان کو لوٹادے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مشکوۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".


مجلة الأحكام العدلية: (ص: 210، ط: نور محمد)
«المادة (1090) إذا أخذ الورثة مقدارا من النقود من التركة قبل القسمة بدون إذن الآخرين وعمل فيه فخساره يعود عليه، كما أنه لو ربح لا يأخذ الورثة حصة فيه.»

شرح المجلة: (المادة: 1090، 26/4، ط: مكتبة رشيدية)
إذا أخذ أحد الورثة مبلغا من الدراهم من التركة قبل القسمة إن أذن الآخرين وعمل فيه وخسر تكون الخسارة عائدة اليه كما انه اذا ربح لا يسوغ لبقية الورثة طلب حصة منه.
لانه إما غاصب او مستودع وكل منهما استربح فيما في يده لنفسه، يكون ربحه له لا للمالك، لكن يملكه ملكا خبيثا سبيله التصدق به على الفقراء.

فقه البيوع: (1010/2، ط: مكتبة معارف القرآن)
والحاصل انه يجب على الغاصب أن يتصدق بهذا الربح والغلة على مذهب ابي حنيفة و محمد رحمها الله تعالى وهو المختار. ويجوز له أيضاً أن يسلم الربح أو الغلة الى المغصوب منه كما مر عن الزيلعي، ومثله في الفتاوي الهندية عن المحيط: ان له الخيار بين أن يتصدق او يرد الأجرة الى المغصوب منه.

درر الحکام فی شرح مجلة الاحکام: (26/3، ط: دار الجیل)
"(المادة 1073) (تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما ، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88).
الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك."

کذا فی فتاویٰ دار العلوم کراتشی: 1072/2

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

bacho ki de hui raqam se bane huwe mall wa jaidad ka hukum, neiz matroka raqam se kiye huwe karobar se hasil hone waley nafay faiday ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster