سوال:
ہمارے علاقے میں اگر علمائے کرام کو کسی کے گھر میں کھانے کی دعوت دی جاتی ہے یا کسی بھی قسم کا دعائیہ پروگرام ہوتا ہے تو دعا سے پہلے ایک دو افراد قرآن کریم کی کچھ آیتیں یا سورتیں تلاوت کرتے ہیں، پھر دوسرا شخص چاروں قُل پڑھتا ہے اور ہر قُل کے ختم پرسب مل کربلند آواز سے ایک مرتبہ یہ دعا پڑھتے ہیں :"لا الہ الا اللہ واللہ اکبر" مثلا: سورہ کافرون کے بعد ایک مرتبہ، پھر سورہ اخلاص کے بعد ایک مرتبہ، اسی طرح چاروں قُل پڑھنے کے بعد ہر مرتبہ پڑھتے ہیں اور پھر وہی شخص ما كَانَ مُحَمد أبا أحد من رجالکم الخ والی آیت تلاوت کرکے إن اللہ وملائکتہ یصلون الخ آیت کو پڑھتا ہے اور پھر درود وسلام کے بعد سب مل کر دعا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سوالات یہ ہیں:
۱) کیا کسی کے گھر دعوت کھانے کے لیے جاکر اس طریقہ سے دعا کرنا درست ہے؟
۲) کیا دعوت کے بغیر کسی بھی قسم کی اجتماعی دُعا کے لئے اس صورت کو اپنانا درست ہے؟
۳) کیا چاروں قل پڑھتے وقت درمیان میں لا الہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھنے کی کوئی خاص فضیلت ثابت ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ تفصیل اور خاص کیفیت کے ساتھ ذکر اور دعا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، اس کو لازم سمجھتے ہوئے اس کا اہتمام کرنا بدعت کے زمرے میں آتا ہے، اسی طرح مذکورہ ترتیب کے مطابق سورتوں کے درمیان "لا الہ الا اللہ واللہ اکبر" پڑھنے کی فضیلت بھی ثابت نہیں ہے، اس لئے مذکورہ کیفیت اپنانے سے پرہیز کرتے ہوئے مسنون طریقہ کے مطابق دعا کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2042، ط: دار احیاء التراث العربی)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ: نَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي، قَالَ: فَقَرَّبْنَا إِلَيْهِ طَعَامًا وَوَطْبَةً، فَأَكَلَ مِنْهَا، ثُمَّ أُتِيَ بِتَمْرٍ فَكَانَ يَأْكُلُهُ وَيُلْقِي النَّوَى بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، وَيَجْمَعُ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى - قَالَ شُعْبَةُ: هُوَ ظَنِّي وَهُوَ فِيهِ إِنْ شَاءَ اللهُ إِلْقَاءُ النَّوَى بَيْنَ الْإِصْبَعَيْنِ - ثُمَّ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الَّذِي عَنْ يَمِينِهِ، قَالَ: فَقَالَ أَبِي: وَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِهِ، ادْعُ اللهَ لَنَا، فَقَالَ: "اللهُمَّ، بَارِكْ لَهُمْ فِي مَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ".
شرح النووي على مسلم: (224/13، ط: دار احياء التراث العربي)
وَفِيهِ اسْتِحْبَابُ طَلَبِ الدُّعَاءِ مِنَ الْفَاضِلِ وَدُعَاءِ الضَّيْفِ بِتَوْسِعَةِ الرِّزْقِ وَالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ وَقَدْ جَمَعَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الدُّعَاءِ خَيْرَاتِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔
البحر الرائق: (172/2، ط: دار الكتاب الإسلامي بيروت)
ولأن ذكر الله تعالى إذا قصد به التخصيص بوقت دون وقت أو بشيء دون شيء لم يكن مشروعا حيث لم يرد الشرع به؛ لأنه خلاف المشروع۔
الاعتصام: (الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها، 53/1)
منها: وضع الحدود كالناذر للصيام قائما لا يقعد ...ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة ... ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة."
و فیه ایضاً: (فصل تحريف الأدلة عن مواضعها، 318/1)
فإذا ندب الشرع مثلا إلى ذكر الله، فالتزم قوم الاجتماع عليه على لسان واحد وبصوت، أو في وقت معلوم مخصوص عن سائر الأوقات؛ لم يكن في ندب الشرع ما يدل على هذا التخصيص الملتزم، بل فيه ما يدل على خلافه."
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی