سوال:
چالیس سال کی عمر پر پہنچنے پر کوئی خاص دعا اور اس کا ادب ہو تو بتادیں۔ جزاک اللہ
جواب: جب چالیس کى عمر ہو جائے تو انسان کو یہ دعاء پڑھنى چاہیے: "رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلى والِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صالِحاً تَرْضاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ"
یہ دعا قرآن کریم میں سورہ أحقاف کى آیت نمبر 15 میں مذکور ہے، اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر درج ذیل ہے:
ترجمہ:
"یا رب! مجھے توفیق دیجیے کہ میں آپ کی اس نعمت کا شکر ادا کروں جو آپ نے مجھے اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی اور ایسے نیک عمل کروں جن سے آپ راضی ہوجائیں، اور میرے لیے میری اولاد کو بھی صلاحیت دے دیجیے، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں شامل ہوں"۔ (سورۃ الأحقاف: آیت نمبر: 15)
تفسیر:
اس آیت کى تفسیر میں حضرت مفتى محمد شفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپنی تفسیر "معارف القرآن" جلد 7 ص 807 میں تحریر فرمایا ہے:
"قرآن نے اس جگہ "حتى إذا بلغ أشدہ سے لے کر من المسلمین" تک سب صیغے ماضی کے استعمال فرمائے ہیں جس سے ظاہر یہ ہے کہ یہ بیان کسی خاص واقعہ اور خاص شخص کا ہے، جو نزول آیت کے وقت ہو چکا ہے، اسی لیے تفسیر مظہری نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ یہ سب حالات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہیں، انہی کا بیان بالفاظ عام اس حکمت کے ساتھ سے کیا گیا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب ہو کہ وہ بھی ایسا ہی کیا کریں۔ ابن کثیرؒ نے چونکہ پہلی تفسیر کو اختیار کیا ہے کہ مراد عام انسان ہے تو جو الفاظ خصوصیت کے اس میں آئے ہیں جیسے: "حتى إذا بلغ أشدہ وبلغ أربعین سنة" وہ سب بطور تمثیل کے ہیں، جس میں یہ ہدایت دینا مقصود ہے کہ انسان جب 40 سال کی عمر کو پہنچے تو اس کو اپنی اصلاح اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح اور آخرت کی فکر غالب ہو جانی چاہیے۔ واللہ سبحانہ وتعالى أعلم"۔
(معارف القرآن: جلد 7 ص 807، طبع: مکتبہ معارف القرآن)
ہمیشہ سے بزرگانِ دین نے اپنی دعاؤں میں اس دعا کو شامل فرمایا ہے، چنانچہ تفسیر رازى میں ہے کہ جب حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کى عمر جب چالیس برس ہو گئى تو آپ یہ دعا مانگا کرتے تھے، لہذا یہ قرآنى دعا ہے، اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسير السمعاني: (154/5، ط: دار الوطن، الرياض – السعودية)
"فقال الكلبي ومقاتل والضحاك: إنها نزلت في أبي بكر الصديق رضي الله عنه وقال الحسن البصري: إنها عامة في جميع المؤمنين. ومعنى الآية: هو الإرشاد إلى شكر الله ودعاء الوالدين".
تفسير ابن عطية: (98/5، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)
"وهذه الآية معناها أن هكذا ينبغي للإنسان أن يفعل، وهذه وصية الله للإنسان في كل الشرائع. وقال الطبري: وذكر أن هذه الآية من أولها نزلت في شأن أبي بكر الصديق، ثم هي تتناول من بعده... والقول بأنها عامة في نوع الإنسان لم يقصد بها أبو بكر ولا غيره أصح".
زاد المسير في علم التفسير لابن الجوزي: (107/4، ط: دار الكتاب العربي – بيروت)
"واختلفوا فيمن نزلت هذه الآية على ثلاثة أقوال: أحدها: أنها نزلت في أبي بكر الصّدّيق رضي الله عنه، وذلك أنه صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثمان عشرة سنة ورسول الله صلى الله عليه وسلم ابن عشرين سنة وهم يريدون الشام في تجارة، فنزلوا منزلاً فيه سِدْرَة، فقعد رسولُ الله صلى الله عليه وسلم في ظِلِّها، ومضى أبو بكر إلى راهب هناك يسأله عن الدين، فقال له: مَن الرَّجُل الذي في ظِلِّ السِّدْرة؟ فقال: ذاك محمد بن عبد الله بن عبد المطلب، فقال: هذا واللهِ نبيٌّ، وما استَظَلَّ تحتَها أحدٌ بعد عيسى إِلاّ محمدٌ نبيُّ الله، فوقع في قلب أبي بكر اليقين والتصديق، فكان لا يفارق رسول الله صلى الله عليه وسلم في أسفاره وحضره، فلمّا نبّئ رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن أربعين سنة وأبو بكر ابن ثمان وثلاثين سنة- صدّق رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلمّا بلغ أربعين سنة قال: رب أَوْزِعْني أن أشكُرََ نِعمتَكَ التي أنعمت عليَّ، رواه عطاء عن ابن عباس، وبه قال الأكثرون: قالوا: فلما بلغ أبو بكر أربعين سنة، دعا الله عز وجل بما ذكره في هذه الآية، فأجابه الله، فأسلم والداه وأولاده ذكورُهم وإناثُهم، ولم يجتمع ذلك لغيره من الصحابة.
والقول الثاني: أنها نزلت في سعد بن أبي وقاص، وقد شرحنا قصته في العنكبوت «4» ، وهذا مذهب الضحاك، والسدي. والثالث: أنها نزلت على العموم، قاله الحسن".
تفسير الرازي: (18/28، ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)
"ويروى أن عمر بن عبد العزيز لما بلغ أربعين سنة كان يقول: اللهم أوزعني أن أشكر نعمتك إلى تمام الدعاء".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی