عنوان: دفن کے بعد میت کو تلقین سے متعلق حدیث کی تحقیق اور تلقین کا حکم (11112-No)

سوال: مفتی صاحب! تدفین کے بعد مردے کو کلمہ کی تلقین کرنا کیسا ہے؟ کیا اس پر کوئی حدیث ہے؟

جواب: واضح رہے کہ میت کو دفن کرنے کے بعد تلقین کرنے سے متعلق جس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے، وہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے۔ جمہور ائمہ کرام اور فقہائے احناف کے نزدیک دفن کے بعد تلقین نہیں ہے اور اس دور میں اعتقادی خرابی کی وجہ سے اس سے اجتناب کرنا چاہیے، خاص کر جبکہ دفن کے بعد تلقین اب روافض کا شعار اور طریقہ بھی بن چکا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔
ذیل میں میت کو دفن کرنے کے بعد تلقین کرنے سے متعلق جس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے، اس روایت کا ترجمہ، تخریج، اسنادی حیثیت اور تلقین کے بار ے میں علمائے کرام کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں:
ترجمہ:
سعيد بن عبد الله الأودی کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ وہ حالتِ نزع میں تھے، کہنے لگے: جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ اسی طرح کرنا جس طرح ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے، آپ نے ہمیں حکم فرمایا تھا، جب تم میں سے کوئی فوت ہوجائے اور تم اس کی قبر پر مٹی برابر کرچکو تو تم میں سے ایک اس کی قبر کے سر کی جانب کھڑا ہو کر کہے، اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں! جب وہ یہ کہے گا تو مردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا، پھر وہ کہے کہ اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں! وہ کہے گا، اللہ تجھ پر رحم کرے، ہماری رہنمائی کر، لیکن تم یہ باتیں سمجھ نہیں سکتے، پھر کہے کہ تو اس بات کو یاد کر جس پر دنیا سے رخصت ہوا ہے، اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، تو اللہ کے رب ہونے، محمد ﷺ کے نبی ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا، منکر اور نکیر میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے، چلو، جس آدمی کو اس کی حجت تلقین کردی گئی ہے، اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتے، چنانچہ دونوں کے سامنے اللہ تعالیٰ اس کا حامی بن جائے گا، ایک آدمی نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! اگر وہ (تلقین کرنے والا ) اس (مرنے والے) کی ماں کو نہ جانتا ہو تو( کیا کرے )؟ فرمایا: وہ اسے حوّاء کی طرف منسوب کرکے کہے، اے حواء کے فلاں بیٹے! (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر:7979)
تخریج الحدیث:
۱۔مذکورہ روایت کوامام طبرانی (م360ھ)نے ’’المعجم الکبیر‘‘(249/8،رقم الحديث"7979،ط:مكتبة ابن تيمية) (1367/3 ،رقم الحديث:1214،ط:دارالبشائرالإسلامية)میں ذکرکیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ ابن الصلاح (م643ھ)، امام نووی (م676ھ) اور علامہ عراقی (م806ھ)نے اس روایت کو’’ضعیف ‘‘قراردیا ہے۔
علامہ ابن قیم(م751ھ)فرماتےہیں:اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ہے۔
علامہ ہیثمی(م807ھ)فرماتے ہیں: اس کی سند میں کئی راویوں کو میں نہیں جان پایا،یعنی وہ مجہول ہیں۔
علامہ ابن حجر عسقلانی(م852ھ)نے ’’نتائج الأفکار‘‘(428/4)میں اس روایت کے بارے میں فرمایا:اس روایت کو امام طبرانی نے دو طرق سے نقل کیا ہے۔۔۔اور حدیث کے دونوں طریق انتہائی ضعیف ہیں، لیکن علامہ ابن حجر عسقلانی نے خود ہی ’’تلخیص الحبیر‘‘(311/2)میں اس روایت کی سند کو درست قرار دیا اور اس روایت کے شواہد بھی ذکر کیے ہیں، اسی طرح علامہ ابن الملقن (م804ھ) بھی فرماتے ہیں کہ میں اس کی سند میں کوئی حرج کی بات نہیں جانتا۔
علامہ ابن القیم نے اگرچہ اس روایت پر ’’زادا لمعاد‘‘ (504/1) اور ’’تھذیب السنن‘‘(454/2) میں کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کے ضعف پر اتفاق ہے اور اس جیسی روایت قابلِ حجت نہیں بن سکتی، لیکن انہوں نے ’’کتاب الروح‘‘(ص:32)میں ’’تلقین‘‘ پر کلام کرتے ہوئے فرمایا کہ’’زمانہ قدیم سے آج تک تلقینِ میت پر لوگوں کا عمل رہا ہے اور امام احمد سے پوچھا گیا تو انہوں نے لوگوں کے عمل کو دلیل بناتے ہوئے اس کو مستحسن قرار دیا اور اس بارے میں ایک ضعیف روایت بیان کی جاتی ہے۔ علامہ ابن قیم اس روایت کو نقل کرکے کہتے ہیں:’’یہ حدیث اگرچہ ثابت نہیں، لیکن اس پر تمام شہروں اور زمانوں میں بغیر کسی نکیر کے عمل ہوتا رہا ہے‘‘۔
علامہ عجلونی(م1162ھ)نے ’’کشف الخفاء‘‘(363/1)میں تفصیل سے کلام کرنےکے بعد آخر میں فرمایا: اس عمل پر دلیل طبرانی کی نقل کردہ روایت ہے جو اگرچہ ضعیف ہے، لیکن قابل اعتماد ہے اور محدثین کرام کا اتفاق ہے کہ فضائل اور ترغیب وترہیب سے متعلق روایات میں چشم پوشی کی جاتی ہے(قبول کی جاتی ہے)اور اہل ِشام کا اس وقت سے لے کر آج تک اس پر عمل ہے۔
علامہ صنعانی(م1182ھ)نے’’جمع الشتیت‘‘(ص:80)میں تلقین کے مسئلے کو نقل کرکے علامہ ابن القیم پر سخت نقد کیا ہے اور اپنی کتاب’’سبل السلام‘‘(502/1)لکھا ہے کہ محققین ائمہ کرام کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس پر عمل کرنا بدعت ہے، اس بدعت کو اختیار کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔
دفن کے بعد تلقین کا حکم:
علامہ ابن الصلاح، امام نووی، بعض شوافع کے نزدیک تلقین مستحب ہے۔
علامہ نووی فرماتے ہیں: تلقین شوافع کے ہاں مستحب ہے اور اس کے مستحب ہونے کی وضاحت ہمارے شوافع علمائے کرام میں سے قاضی حسین، متولی، شیخ نصر المقدسی، اورالرفاعی وغیرہ نے کی ہے اور ابن صلاح سے تلقین میت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ ہم اسے پسند بھی کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور اس سے متعلق ہم حدیث ابو امامہ بھی نقل کی ہے اگرچہ اس کی سند کمزور ہے، لیکن اس روایت کو شواہد اور اہلِ شام کے عمل کی وجہ سے تقویت ملتی ہے۔
ملا علی قاری (م1014ھ) لکھتے ہیں کہ حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ہمارے مذہب کے مطابق یہ معتمد سنت ہے، بخلاف ان کہ جنہوں نے اس کو بدعت گمان کیا اور اس بارےمیں واضح حدیث بھی موجود ہے، جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے اتنے شواہد و توابع ہیں جو اسے درجہ حسن تک پہنچا دیتے ہیں۔
فقہائے احناف کے اقوال:
تنویر الابصار میں ہے کہ’’ دفن کرنے کے بعد تلقین نہیں کی جائے گی‘‘۔
علامہ عینی (م855ھ)فرماتے ہیں:ظاہر الروایہ کے مطابق احناف کے نزدیک تلقین نہیں کی جائے گی۔
مولانا ظفر احمد عثمانى(م1394ھ)تلقین سے متعلق تفصیلاً کلام کرنے کے بعد لکھتے ہیں:خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بعد از دفن تلقین اگرچہ حدیث میں منقول ہونے کی وجہ سے مستحب ہے، لیکن چونکہ اب یہ روافض کا شعار بن چکا ہے اور اہل ِ سنت نے اس کو ترک کردیا ہے، لہذا اب تلقین نہیں کرنی چاہیے۔
خلاصہ ٔکلام:
میت دفن کرنے کے بعد تلقین کا ذکر اگرچہ بعض روایات میں ہے، لیکن وہ روایت ضعیف اورکمزور ہے، جیسا کہ تفصیل سے معلوم ہوا اور دفن کے بعد تلقین کے بارے میں چونکہ فقہائے کرام کا اختلاف ہے، بعض جواز اور بعض عدم جواز کے قائل ہیں، اس لیے اس دور میں اعتقادی خرابی کی وجہ سے احتراز اولیٰ و افضل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المعجم الکبیر للطبراني: (رقم الحدیث: 7979، 249/8، ط: مکتبة ابن تیمیة)
حدثنا أبو عقيل أنس بن سلم الخولاني، ثنا محمد بن إبراهيم بن العلاء الحمصي، ثنا إسماعيل بن عياش، ثنا عبد الله بن محمد القرشي، عن يحيى بن أبي كثير، عن سعيد بن عبد الله الأودي، قال: شهدت أبا أمامة وهو في النزع، فقال: إذا أنا مت، فاصنعوا بي كما أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نصنع بموتانا، أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " إذا مات أحد من إخوانكم، فسويتم التراب على قبره، فليقم أحدكم على رأس قبره، ثم ليقل: يا فلان بن فلانة، فإنه يسمعه ولا يجيب، ثم يقول: يا فلان بن فلانة، فإنه يستوي قاعدا، ثم يقول: يا فلان بن فلانة، فإنه يقول: أرشدنا رحمك الله، ولكن لا تشعرون. فليقل: اذكر ما خرجت عليه من الدنيا شهادة أن لا إله إلا الله، وأن محمدا عبده ورسوله، وأنك رضيت بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، وبالقرآن إماما، فإن منكرا ونكيرا يأخذ واحد منهما بيد صاحبه ويقول: انطلق بنا ما نقعد عند من قد لقن حجته، فيكون الله حجيجه دونهما ". فقال رجل: يا رسول الله، فإن لم يعرف أمه؟ قال: «فينسبه إلى حواء، يا فلان بن حواء»

هذا الحديث أورده ابن القيم في ’’زادالمعاد‘‘(504/1) بلفظ الطبراني سواءثم قال:فهذا حديث لا يصح رفعه. وقال في ’’تهذيب السنن‘‘(454/2):
"هذا الحديث متفق على ضعفه فلا تقوم به حجة". وعزاه الهيثمي في ’’ مجمع الزوائد‘‘(45/3)(4247) للطبراني في " الكبير " وقال: وفي إسناده جماعة لم أعرفهم ". وضعفه النووي في ’’الخلاصة‘‘(1029/2)(3678)و العراقي في ’’تخريج الإحياء‘‘(1878) و الحافظ ابن حجر العسقلاني في ’’نتائج الأفکار‘‘(428/4) وقال:وسند الحديث من الطريقين ضعيف جداً .لكن ومع ذلك فقد حاول جماعة تقوية هذا الحديث،و منهم ابن الملقن فقال في ’’البدر المنير‘‘(334/5) : إسناده لا أعلم به بأساً. ثم ذكر له جملة من الشواهد "يعتضد بها" و ابن حجر العسقلاني فقال في ’’التلخیص ‘‘(311/2) وإسناده صالح وقد قواه الضياء في أحكامه وأخرجه عبد العزيز في الشافي والراوي عن أبي أمامة سعيد الأزدي بيض له ابن أبي حاتم ولكن له شواهد۔۔ انتهى. وقال ابن القيم في كتابه’’الروح‘‘(32) ما جرى عليه عمل الناس قديما وإلى الآن من تلقين الميت في قبره ولولا أنه يسمع ذلك وينتفع به لم يكن فيه فائدة وكان عبثا وقد سئل عنه الإمام أحمد رحمه الله فاستحسنه واحتج عليه بالعمل۔۔۔ فهذا الحديث وإن لم يثبت فإتصال العمل به في سائر الأمصار والأعصار من غير انكار كاف في العمل به. وتعقبه الصنعاني في ’’جمع الشتیت‘‘(ص:80) وقال:قلت: وهو كما تراه فى غاية الضعف فانه يقال له أو لا تشك انت ولا تنكر أن أعظم الأئمة اتباعا واقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم هم اصحابه ونعلم يقينا انه لم يأت عنهم حرف واحد أنهم لقنوا أبا بكر ولا عمر ولا عثمان ولا عليا رضى الله عنهم و لا أن أحدا من هؤلاء الخلفاء لقن ميتا بعد دفنه بل ولا يمكن والله أن يأتي عن أحد الصحابة أنه قام على قبر غيره وقال يافلان بن فلانه ولا قام أحد على قبر صحابي يناديه فكيف يقول ابن القيم مع امامته أنه اتصل العمل في سائر الامصار والاعصار وأحمد يذكر أنه لم يفعله أحد الا أهل الشام حين مات أبو المغيرة وكم من اعصار قبله خلت من وفاته صلى الله عليه وسلم وأما الامصار فلم تكن انحصرت في الشام. وقال الصنعاني في ’’سبل السلام‘‘(502/1) ويتحصل من كلام أئمة التحقيق أنه حديث ضعيف والعمل به بدعة ولا يغتر بكثرة من يفعله. ولكن النووي استحب التلقين كمافي ’’شرح المهذب‘‘(304/5): فهذا التلقين عندهم مستحب ممن نص على استحبابه القاضي حسين والمتولي والشيخ نصر المقدسي والرافعي وغيرهم ونقله القاضي حسين عن أصحابنا مطلقا وسئل الشيخ أبو عمرو بن الصلاح رحمه الله عنه فقال التلقين هو الذي نختاره ونعمل به قال وروينا فيه حديثا من حديث أبي أمامة ليس إسناده بالقائم لكن اعتضد بشواهد وبعمل أهل الشام قديما هذا كلام أبي عمرو قلت حديث أبي أمامة رواه أبو القاسم الطبراني في معجمه بإسناد ضعيف. و قال العجلوني في ’’کشف الخفاء‘‘(363/1) بعد ذكرالكلام على هذا الحديث:’’وقد اتفق علماء الحديث على المسامحة في أحاديث الفضائل والترغيب والترهيب, ولم يزل أهل الشام على العمل بهذا في زمن من يقتدى به إلى الآن انتهى.

رد المحتار: (191/2، ط: دار الفكر)
(قوله: ولا يلقن بعد تلحيده) ذكر في المعراج أنه ظاهر الرواية ثم قال وفي الخبازية والكافي عن الشيخ الزاهد الصفار: أن هذا على قول المعتزلة لأن الإحياء بعد الموت عندهم مستحيل أما عند أهل السنة فالحديث أي «لقنوا موتاكم لا إله إلا الله» محمول على حقيقته لأن الله تعالى يحييه على ما جاءت به الآثار وقد روي عنه - عليه الصلاة والسلام - «أنه أمر بالتلقين بعد الدفن فيقول: يا فلان بن فلان اذكر دينك الذي كنت عليه ۔۔۔وقد أطال في الفتح في تأييد حمل موتاكم في الحديث على حقيقته مع التوفيق بين الأدلة على أن الميت يسمع أو لا كما سيأتي في باب اليمين في الضرب والقتل من كتاب الأيمان لكن قال في شرح المنية: إن الجمهور على أن المراد منه مجازه ثم قال: وإنما لا ينهى عن التلقين بعد الدفن لأنه لا ضرر فيه بل نفع فإن الميت يستأنس بالذكر على ما ورد في الآثار إلخ.
قلت: وما في ط عن الزيلعي لم أره فيه وإنما الذي فيه قيل يلقن لظاهر ما رويناه وقيل: لا، وقيل لا يؤمر به ولا ينهى عنه اه وظاهر استدلاله للأول اختياره فافهم.

مرقاة المفاتيح: (رقم الحديث: 133، 216/1، ط: دار الفكر)
وقال ابن حجر: وفيه إيماء إلى تلقين الميت بعد تمام دفنه وكيفيته مشهورة، وهو سنة على المعتمد من مذهبنا خلافا لمن زعم أنه بدعة، كيف وفيه حديث صريح يعمل به في الفضائل اتفاقا بل اعتضد بشواهد يرتقي بها إلى درجة الحسن.

البناية شرح الهداية: (177/3، ط: دار الكتب العلمية)
وأما التلقين بعد الموت فلا يلقن عندنا في ظاهر الرواية.

إعلاء السنن: (211/8، ط: ادارة القرآن)
وبالجملة فالتلقين بعد الدفن يستحب في نفسه لوروده بصيغة الأمر في الحديث، ولكن الآن قد صار شعار الروافض، وتركه أهل السنة، ففيه خوف التهمة، فلا يلقن.

احسن الفتاوی: (253/4، ط: سعيد)

امدادالأحكام: (209/1، ط: مكتبة دارالعلوم كراتشي)

فتاوى محموديه: (72/9، ط: ادارة الفاروق)

فتاوى دار العلوم زكريا: (341/1، ط: زمزم ببلشرز)

و أیضاً: (647/2)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1125 Sep 27, 2023
dafan ke baad mayyat ko talqeen se mutaliq hadees ki tehqiq or talqeen ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Funeral & Jinaza

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.