سوال:
بلوچستان میں اگلے اڑتالیس گھنٹوں کے دوران ماہرین نے زلزلہ کی پیشگوئی کی ہے، اس بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ مسلمانوں کو ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے؟
جواب: زلزلہ اور دیگر آفات و بلیات کے موقعوں پر ایک مسلمان کو درجہ ذیل کاموں کا اہتمام کرنا چاہیے:
(1) ان مواقع میں سب سے ضروری اور اہم کام اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرنا ہے، احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی کثرت زلزلہ کا سبب ہوتا ہے، اور گناہوں سے توبہ کرنا اس سے ذریعہ نجات ہے۔
(2) کثرت سے صدقہ وخیرات کرنا چاہیے۔
(3) جو لوگ زلزلہ وغیرہ آفات کے زد میں آجائیں ان کی مدد کی جائے، یہ ایک مسلمان کا شرعی و اخلاقی فریضہ ہے۔
(4) مندرجہ ذیل دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي
ترجمہ: اے اللہ! میں آپ کی عظمت کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں نیچے سے ہلاک کیا جاؤں (یعنی زلزلہ سے)۔
(سنن النسائی، باب الاستعاذة، رقم الحديث: 5529)
اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَدْمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّي، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْغَرَقِ، وَالْحَرَقِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا.
ترجمہ: اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، دب کر مرنے سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں، گر کر مرنے سے، اور ڈوب کر مرنے سے، اور جل کر مرنے سے، اور بڑھاپے کی کمزوری سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں، اس بات سے کہ موت کے وقت مجھے شیطان اچک لے، اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں تیرے راستے میں پیٹھ پھیر کر مروں، اور اس بات سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ کسی موذی جانور کے ڈسنے سے مروں۔
(السنن لابي داؤد، بَابٌ فِي الِاسْتِعَاذَةِ، رقم الحدیث: 1552)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (1999/4، رقم الحديث: 2586)
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الْجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ، تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ".
المعجم الكبير للطبراني: (رقم الحديث: 8014، 261/8، ط: مكتبة ابن تيمية)
حدثنا يحيى بن محمد الحنائي، ثنا سيار بن فروخ، ثنا عيسى بن شعيب، عن حفص بن سليمان، عن يزيد بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صنائع المعروف تقي مصارع السوء، وصدقة السر تطفئ غضب الرب، وصلة الرحم تزيد في العمر».
العقوبات لإبن أبي دنيا: (ص: 29، ط: دار إبن حزم)
حدثنا عبد الله قال: حدثني علي بن محمد بن إبراهيم، قال: أخبرنا أبو مريم، قال: أخبرنا العطار بن خالد الحرمي، قال: أخبرنا محمد بن عبد الملك بن مروان، " أن الأرض زلزلت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوضع يده عليها ثم قال: «اسكني، فإنه لم يأن لك بعد» ، ثم التفت إلى أصحابه فقال: «إن ربكم يستعتبكم فأعتبوه» .
ثم زلزلت بالناس في زمن عمر بن الخطاب فقال: «أيها الناس، ما كانت هذه الزلزلة إلا عن شيء أحدثتموه، والذي نفسي بيده لئن عادت لا أساكنكم فيها أبدا»
الجواب الكافي: (113/1، ط: دار إبن حزم)
وكتب عمر بن عبد العزيز إلى الأمصار: أما بعد، فإن هذا الرجف شيء يعاتب الله عز وجل به العباد. وقد كتبت إلى الأمصار أن يخرجوا في يوم كذا وكذا، في شهر كذا وكذا، فمن كان عنده شيء فليتصدق به، فإن الله عز وجل يقول: {قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى } [الأعلى: ١٤ - ١٥] وقولوا كما قال آدم: {ربنا ظلمنا أنفسنا وإن لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن من الخاسرين } [الأعراف: ٢٣]، وقولوا كما قال نوح: {وإلا تغفر لي وترحمني أكن من الخاسرين } [هود: ٤٧] وقولوا كما قال يونس: {لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين } [الأنبياء: ٨٧] .
اخبار الزلزلة للتهانوي: (ص: 10)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی