سوال:
میرا ایک بھائی نفسیاتی مریض ہے، اس کا یہ مرض جنون کی حد تک ہے، وہ کود کسی بھی چیز کی حفاظت پر قادر نہیں ہے، وہ مستحق زکوۃ ہے، میں اس کا سرپرست اور وکیل ہوں۔ گھر پردے کے پیش نظر اس کے لیے علیحدہ رہائش کا انتظام کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے ایک فلیٹ کرائے پر لینا چاہتا ہوں یا ایک کنٹینر خرید لوں تو کیا میں اس کے لیے زکوۃ کی رقم سے فلیٹ کا کرایہ دے سکتا ہوں یا اس کے لیے کنٹینر خرید کر رکھ سکتا ہوں، یہ زکوۃ کی اس رقم سے کروں گا جو میرے رشتہ دار یا دوسرے لوگ مجھے اس کے لیے وکیل بنا کر دیتے ہیں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ آپ کا بھائی جنون کی حد تک نفسیاتی مریض ہے، جو مال کی قدر و قیمت سمجھنے اور اس کی حفاظت کرنے پر قادر نہیں ہے، لہذا آپ کا اس کی طرف سے نائب بن کر اس کے لیے زکوۃ وصول کرنا جائز ہے۔ یہ رقم آپ کے پاس بطور امانت رہے گی، جسے آپ بھائی کی ضروریات میں بوقت ضرورت خرچ کرسکتے ہیں، اس لیے اگر آپ کے بھائی کے لیے الگ رہائش کی ضرورت ہو اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو اس کے لیے الگ فلیٹ خریدنے یا کرایے پر لینے کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ مجنون کے مال میں تصرف کا حق بھائی کو اس وقت حاصل ہوگا، جبکہ مجنون کا ولی موجود نہ ہو، اور ولی سے مراد اس کا باپ یا باپ کا وصی یا ان کے نہ ہونے کی صورت میں مجنون کا دادا یا دادا کا وصی اور ان سب کے نہ ہونے کی صورت میں قاضی ہے، کیونکہ اگر ان میں سے کوئی بھی موجود ہو تو مجنون کے مال میں اس کے بھائی کو تصرف کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
تاہم مجنون بھائی کے مال میں تصرف کے جواز کی صورت میں بھی اسے اس کی زمین بیچنے یا اس کا مال تجارت وغیرہ میں لگانے کا اختیار نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (190/1، ط: دار الفكر)
إذا دفع الزكاة إلى الفقير لا يتم الدفع ما لم يقبضها أو يقبضها للفقير من له ولاية عليه نحو الأب والوصي يقبضان للصبي والمجنون كذا في الخلاصة. أو من كان في عياله من الأقارب أو الأجانب الذين يعولونه والملتقط يقبض للقيط. ولو دفع الزكاة إلى مجنون أو صغير لا يعقل فدفع إلى أبويه أو وصيه قالوا لا يجوز كما لو وضع على دكان ثم قبضها فقير لا يجوز، ولو قبض الصغير، وهو مراهق جاز، وكذا لو كان يعقل القبض بأن كان لا يرمي، ولا يخدع عنه، ولو دفع إلى فقير معتوه جاز كذا في فتاوى قاضي خان.
و فیھا ایضاً: (54/5، ط: دار الفكر)
ولا يجوز تصرف المجنون المغلوب أصلا، ولو أجاز الولي، وإن كان يجن تارة ويفيق أخرى فهو في حال إفاقته كالعاقل والمعتوه كالصبي العاقل في تصرفاته وفي رفع التكليف عنه واختلفوا في تفسيره اختلافا كثيرا وأحسن ما قيل فيه هو من كان قليل الفهم مختلط الكلام فاسد التدبير إلا أنه لا يضرب ولا يشتم كما يفعل المجنون، كذا في التبيين.
الدر المختار مع رد المحتار: (173/6، ط: دار الفکر)
(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن ... وما تردد) من العقود (بين نفع وضرر كالبيع والشراء توقف على الإذن) ... (فإن أذن لهما الولي فهما في شراء وبيع كعبد مأذون) في كل أحكامه. (ووليه أبوه ثم وصيه) بعد موته ثم وصي وصيه كما في القهستاني عن العمادية (ثم) بعدهم (جده) الصحيح وإن علا (ثم وصيه) ثم وصي وصيه قهستاني زاد القهستاني والزيلعي ثم الوالي بالطريق الأولى (ثم القاضي أو وصيه) أيهما تصرف يصح فلذا لم يصح ثم (دون الأم أو وصيها) هذا في المال
(قوله هذا في المال) ليس على إطلاقه. ففي وكالة البحر عن خزانة المفتين: وليس لوصي الأم ولاية التصرف في تركة الأم مع حضرة الأب أو وصيه أو وصي وصيه أو الجد، وإن لم يكن واحد ممن ذكرنا فله الحفظ وبيع المنقول لا العقار والشراء للتجارة، وما استفاده الصغير من غير مال الأم مطلقا وتمامه فيها اه لكن بيع المنقول من الحفظ قال في السابع والعشرين من جامع الفصولين: ولو لم يكن أحد منهم، فلوصي الأم الحفظ وبيع المنقول من الحفظ، وليس له بيع عقاره ولا ولاية الشراء على التجارة إلا شراء ما لا بد منه من نفقة وكسوة وما ملكه اليتيم من مال غير تركة أمه فليس لوصي أمه التصرف فيه منقولا أو غيره وتمامه فيه فراجعه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی