سوال:
مفتی صاحب! ایک مسئلہ کی وضاحت چاہیے تھی کہ اگر لڑکی رخصتی سے پہلے خلع چاہتی ہو اور نکاح کے بعد میاں بیوی والے تعلقات بھی قائم نہیں ہوئے ہوں تو کیا خلع ہو جانے کی صورت میں مہر اور نان و نفقہ کی حقدار ہوگی؟ اور اگر شوہر رخصتی سے پہلے طلاق دینا چاہے یا دونوں طرف سے یہی خواہش ہو تو اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نکاح کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور سکون کی زندگی گزارنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، لہذا میاں بیوی کو حتی الامکان اس رشتے کے نباہ کے لیے ہر ممکن صورت اختیار کرنی چاہیے اور بلا کسی شرعی عذر کے خلع یا طلاق کے ذریعے نکاح جیسی عظیم نعمت کی ناشکری کا مرتکب نہیں ہونا چاہیے، بلکہ عورت کی طرف سے بلا کسی شرعی وجہ کے خلع کا مطالبہ کرنا جنت سے محرومی اور مرد کی طرف سے بلا کسی شرعی عذر کے طلاق دینا عند اللہ ایک مبغوض ترین عمل کے مرتکب ہونے کا سبب ہے۔
تاہم اگر پھر بھی نباہ مشکل ہونے کی وجہ سے میاں بیوی رخصتی سے پہلے رشتہ ازدواج کو ختم کرنا چاہتے ہوں تو اس کا بہتر طریقہ یہ کہ شوہر بیوی کو ایک طلاق دے کر اپنے رشتہ ازدواج سے آزاد کردے، البتہ اس صورت میں رخصتی سے پہلے طلاق کی وجہ سے عورت نصف مہر کے مستحق ہوگی، اور اگر طلاق کی بجائے خلع کے ذریعے رخصتی سے پہلے نکاح کو ختم کرنا چاہیں تو اس صورت میں اگر مہر چھوڑنے پر خلع ہوجائے یا خلع میں مہر کا بالکل تذکرہ ہی نہ کیا جائے تو ایسی صورت میں عورت حق مہر کی مستحق نہیں ہوگی، نیز رخصتی سے پہلے طلاق کی وجہ سے وہ نان نفقہ کی بھی مستحق نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ خلع ایک مالی معاملہ ہے، جس کے لیے دیگر مالی معاملات کی طرح طرفین کی باہمی رضامندی ضروری ہے، لہذا میاں بیوی کی طرف سے باہمی رضامندی کے بغیر یک طرفہ خلع لینے کی صورت میں وہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (الروم، الآية: 21)
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.
سنن أبي داؤد: (رقم الحديث: 2226، 543/3، ط: دار الرسالة العالمية)
عن ثوبان قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم : "أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة".
رد المحتار: (453/3، ط: دار الفكر)
اعلم أن حاصل وجوه المسألة أن البدل إما أن يكون مسكوتا عنه، أو منفيا أو مثبتا على الزوج، أو عليها بمهرها كله، أو بعضه أو مال آخر، وكل من الستة على وجهين: إما أن يكون المهر مقبوضا، أو لا، وكل من الاثني عشرإما أن يكون قبل الدخول بها، أو بعده، فإن كان البدل مسكوتا عنه ففيه روايتان أصحهما براءة كل منهما عن المهر لا غير، فلا ترد ما قبضت ولا يطالب هو بما بقي وسيأتي تمام الكلام عليه عند قول المصنف وبرئ عن المؤجل لو عليه إلخ وإن كان منفيا كقوله اخلعي نفسك مني بغير شيء ففعلت وقبل الزوج صح بغير شيء لأنه صريح في عدم المال ووقوع البائن فلا يبرأ كل منهما عن حق صاحبه وإن كان معينا على الزوج فسيأتي آخر الباب؛ وإن كان بكل المهر، فإن كان مقبوضا رجع بجميعه وإلا سقط عنه كله مطلقا أي قبل الدخول، أو بعده وإن خالعها على أن يجعله لولدها، أو لأجنبي جاز الخلع والمهر للزوج، وإن ببعضه كالعشر مثلا، والمهر عشرون، فإن قبضته رجع بدرهمين لو بعد الدخول وسلم لها الباقي، وبدرهم فقط إن كان قبله لأنه عشر النصف، وإن لم يكن مقبوضا سقط الكل مطلقا المسمى بحكم الشرط والباقي بحكم لفظ الخلع، وإن بمال آخر غير المهر فله المسمى وبرئ كل منهما مطلقا في الأحوال كلها اه ملخصا من البحر والنهر وغرر الأذكار.
آپ کے مسائل اور ان کا حل: (301/6، ط: مکتبه لدھیانوی)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی