سوال:
محترم مفتى صاحب! وراثت کى تقسیم کا مسئلہ درپیش ہے، برائے کرم شریعت کى روشنى میں اس کا حل عنایت فرما دیں۔
ایک ڈاکٹرصاحب اس فانى دنیا سے انتقال فرما گئے ہیں۔ مرحوم کے پس ماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹى، دو بھائى، دو بہنیں زندہ ہیں، جبکہ والدین اور ایک بھائی مرحوم کی وفات سے پہلے فوت ہو چکے ہیں، مرحوم کا ایک بھتیجا بھی زندہ ہے، مرحوم کا انتقال ابھى رمضان میں ہوا ہے، مذکورہ بالا ورثاء میں وراثت تقسیم کرنے کا شرعى طریقہ کے احکامات صادر فرمائیں، آپ کى رہنمائى ہمارے لیے آخرت میں نجات کا ذریعہ ہوگی۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو سولہ (16) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو دو (2)، بیٹی کو آٹھ (8)، دونوں زندہ بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو (2) اور دونوں بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک (1) حصہ ملے گا، جبکہ مرحوم کی زندگی میں فوت ہونے والے بھائی اور بھتیجے کو مرحوم کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوہ کو %12.5 فیصد حصہ، بیٹی کو %50 فیصد حصہ، دونوں زندہ بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو %12.5 فیصد حصہ اور دونوں بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک %6.25 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 176)
وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ... الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی