سوال:
میری والدہ کی عمر 68 برس ہے، وہ حج اور عمرہ کے فرائض انجام نہیں دی سکتی، میں ان کا اکلوتا بیٹا ہوں، اگر میں حج یا عمرہ کی مارکیٹ کے حساب سے قیمت والدہ کو دے دوں تو مجھے اس کی فضیلت حاصل ہوجائے گی یا مجھے اپنی والدہ کے لیے حج اور عمرہ بدل کرنا پڑے گا؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں والدہ کو پیسے دینے سے صدقہ کی فضیلت تو حاصل ہوجائے گی، لیکن حج و عمرہ کروانے کی فضیلت حج وعمرہ کروانے ہی سے حاصل ہوگی، نیز اگر آپ کی والدہ پر حج فرض ہے تو ایسی صورت میں ان کے لیے حج کی ادائیگی ضروری ہے اور اگر وہ بڑھاپے، بیماری یا کسی عذر کی وجہ سے حج کرنے پر قادر نہ ہوں اور مستقبل میں بھی اس عذر کے ختم ہونے کی امید نہ ہو تو اپنی زندگی میں حج بدل کرواسکتی ہیں اور اگر نہیں کروایا تو حج بدل کی وصیت کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (رقم الحدیث: 995، 692/2، ط: دار إحیاء التراث العربي)
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وأبو كريب -واللفظ لأبي كريب- قالوا: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن مزاحم بن زفر، عن مجاهد، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "دينار أنفقته في سبيل الله ودينار أنفقته في رقبة، ودينار تصدقت به على مسكين، ودينار أنفقته على أهلك، أعظمها أجرا الذي أنفقته على أهلك".
سنن الدار قطني: (رقم الحديث: 2608، 299/3، ط: مؤسسة الرسالة)
عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حج عن أبويه أو قضى عنهما مغرما بعث يوم القيامة مع الأبرار».
الھندیة: (257/1، ط: دار الفکر)
الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج وقراءة القرآن.... وجميع أنواع البر، ..... (العبادات ثلاثة أنواع): مالية محضة كالزكاة وصدقة الفطر، وبدنية محضة كالصلاة والصوم، ومركبة منهما كالحج. والإنابة ....تجري في النوع الثالث عند العجز، كذا في الكافي. ولجواز النيابة في الحج شرائط. (منها) : أن يكون المحجوج عنه عاجزا عن الأداء بنفسه وله مال، فإن كان قادرا على الأداء بنفسه بأن كان صحيح البدن وله مال أو كان فقيرا صحيح البدن لا يجوز حج غيره عنه. (ومنها) استدامة العجز من وقت الإحجاج إلى وقت الموت هكذا في البدائع حتى لو أحج عن نفسه وهو مريض يكون مراعى فإن مات أجزأه، وإن تعافى بطل.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی