سوال:
میرے ہوائی جہاز میں نماز پڑھنے سے متعلق چند سوالات ہیں:
1) اگر ہوائی جہاز میں قیام اور قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھ لی، تب بھی نماز بعد میں لوٹانی پڑے گی؟
2) ہوائی جہاز میں قیام ممکن ہو لیکن (45 ڈگری کے اندر) قبلہ رخ کھڑا ہونا ممکن نہ ہو تو کیا صورت اختیار کرنی پڑے گی؟
3) ہوائی جہاز میں قیام ممکن ہو، لیکن قبلہ کا رخ معلوم نہ ہوسکے (پاکستان سے باہر طویل بین الاقوامی پروازوں میں) تو کیا صورت اختیار کرنی ہوگی؟
جواب: 1) ہوائی جہاز میں قبلہ کی جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے اور اعادہ لازم نہیں ہوتا۔
3/2) واضح رہے کہ فرض اور واجب نماز کے لیے قیام اور استقبالِ قبلہ دونوں شرط ہیں، لہٰذا ہوائی جہاز میں خواہ کھڑے ہوکر قبلہ رخ کیے بغیر نماز ادا کی جائے یا بیٹھ کر قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کی جائے، دونوں صورتوں میں اگر شرعی معذوری کے بغیر ایسا کیا گیا ہے تو نماز لوٹانی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (149/1، ط: دار الكتاب الإسلامي)
العذر إن كان من قبل الله تعالى لا تجب الإعادة وإن كان من قبل العبد وجبت الإعادة.
الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني: (222/1، ط: إدارة القران و العلوم الإسلامية)
قلت أرأيت رجلا أصابه فزع أو خوف من شيء فلم يستطع القيام لما به هل يجزيه أن يصلي قاعدا قال نعم.
المبسوط للسرخسي: (196/1، ط: دار المعرفة)
الحدث كان بصنع العباد فيمنعه كما لو كان بصنعه؛ لأن هذا ليس في معنى المنصوص عليه، فإن الحدث السماوي العذر المانع من المضي ممن له الحق، وهنا العذر من غير من له الحق وبينهما فرق، فإن المريض يصلي قاعدا ثم لا يعيد إذا برأ، والمقيد يصلي قاعدا ثم تلزمه الإعادة عند إطلاقه.
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري: (23/1، ط: المطبعة الخيرية)
وإن لم يجد الماء ووجد التراب الطاهر يتيمم ويصلي عند أصحابنا الثلاثة خلافا لزفر وهل يلزمه الإعادة ذكر محمد في الزيادات أنه يعيد استحسانا؛ لأن العذر حصل من جهة آدمي وذلك لا يؤثر في وجوب الإعادة كمن قيد رجلا حتى صلى قاعدا ثم أزال ذلك عنه فإنه يلزمه الإعادة إجماعا.
ماخذه: تبویب جامعة دار العلوم کراتشي: رقم الفتوی: 1799/40
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی