سوال:
مفتی صاحب! میرے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، ورثاء میں میں (بیوہ)، میرے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، میرے شوہر کی کھیت کی زمین ایک کروڑ پانچ لاکھ کی فروخت ہوئی اور ان کا گھر بیالیس لاکھ کا فروخت ہوا، یعنی ان کی میراث کی ٹوٹل رقم ایک کروڑ سینتالیس لاکھ (14700000) روپے ہے۔ اس رقم سے ہم نے یعنی میں اور دونوں بیٹوں ابوہریرہ، ابو عبیدہ کے ساتھ میں نے عمرہ کیا، عمرے پر دس لاکھ اس رقم سے نکلے۔ اس ٹوٹل رقم سے بیٹوں اور بیٹیوں کا خود میرا حصہ بتادیجیے۔
جواب: مرحوم کے انتقال کے بعد اس کے متروکہ اموال و جائیداد میں اس کے تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے اس جائیداد میں شریک ہوجاتے ہیں اور ترکہ کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ مشترکہ ترکہ میں سے دیگر ورثاء کی رضامندی کے بغیر کوئی تصرف کرے، لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں مشترکہ میراث میں سے استعمال کی گئی دس لاکھ (1000000) روپے کی رقم والدہ اور دونوں بیٹوں پر قرض ہے، جو ان کو ادا کرنا لازم ہے۔ اب یا تو میراث کی تقسیم سے پہلے تینوں میں سے جس نے جتنی رقم استعمال کی ہے، اپنی طرف سے اتنی رقم ترکہ میں شامل کردے یا میراث کی تقسیم کے وقت اپنے حصہ سے اتنی رقم منہا کروادے۔
مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل رقم کو آٹھ (8) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو ایک (1)، دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو دو (2) اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
اس تقسیم کی رو سے ایک کروڑ سینتالیس (14700000) لاکھ میں سے بیوہ کو اٹھارہ لاکھ سینتیس ہزار پانچ سو (1837500) روپے، دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو چھتیس لاکھ پچھتر ہزار (3675000) روپے اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو اٹھارہ لاکھ سینتیس ہزار پانچ سو (1837500) روپے ملیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ
الھندیة: (کتاب الشرکة، 301/2، ط: دار الفکر)
"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، و كل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی