سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کل رات تراویح کی نماز میں حافظ صاحب نے سورة المائدہ آیت نمبر 23 "غالبون" کی جگہ "داخلون" پڑھ دیا تھا، معلوم یہ کرنا ہے کہ ہماری تراویح کی نماز ہوگئی ہے یا دہرانی ہوگی؟ مزید یہ کہ ایسی اغلاط کے لیے کوئی راہنما اصول سمجھے جا سکتے ہیں یا کہ آپ حضرات سے غلطی شیئر کرکے راہنمائی لی جائے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر نماز میں تلاوت کے دوران غلطی سے ایک کلمہ کی جگہ دوسرا ایسا کلمہ پڑھ لیا جائے، جس سے اس آیت کے معنی میں شدید بگاڑ پیدا ہوجائے تو اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، یہ فیصلہ کرنا کہ معنی میں بگاڑ پیدا ہوا ہے یا نہیں، ان غلط پڑھے جانے والے الفاظ کو دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔
پوچھی گئی صورت حافظ صاحب نے "غالبون" کی جگہ "داخلون" پڑھا ہے، اس سے معنی میں شدید بگاڑ پیدا نہیں ہوا ہے، بلکہ اس کی توجیہ ممکن ہے اور لفظ "داخلون" بھی ایک قرآنی کلمہ ہے جو سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 22 میں مذکور ہے، اس لیے پوچھی گئی صورت میں آپ کی تراویح کی نماز درست ہوگئی ہے، اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (630/1، ط: دار الفکر)
إن الخطأ إما في الإعراب أي الحركات والسكون ويدخل فيه تخفيف المشدد وقصر الممدود وعكسهما أو في الحروف بوضع حرف مكان آخر، أو زيادته أو نقصه أو تقديمه أو تأخيره أو في الكلمات أو في الجمل كذلك أو في الوقف ومقابله. والقاعدة عند المتقدمين أن ما غير المعنى تغييرا يكون اعتقاده كفرا يفسد في جميع ذلك، سواء كان في القرآن أو لا إلا ما كان من تبديل الجمل مفصولا بوقف تام وإن لم يكن التغيير كذلك، فإن لم يكن مثله في القرآن والمعنى بعيد متغير تغيرا فاحشا يفسد أيضا كهذا الغبار مكان هذا الغراب.
وكذا إذا لم يكن مثله في القرآن ولا معنى له كالسرائل باللام مكان السرائر، وإن كان مثله في القرآن والمعنى بعيد ولم يكن متغيرا فاحشا تفسد أيضا عند أبي حنيفة ومحمد، وهو الأحوط. وقال بعض المشايخ: لا تفسد لعموم البلوى، وهو قول أبي يوسف وإن لم يكن مثله في القرآن ولكن لم يتغير به المعنى نحو قيامين مكان قوامين فالخلاف على العكس فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغير المعنى كثيرا وجود المثل في القرآن عنده والموافقة في المعنى عندهما، فهذه قواعد الأئمة المتقدمين. وأما المتأخرون كابن مقاتل وابن سلام وإسماعيل الزاهد وأبي بكر البلخي والهندواني وابن الفضل والحلواني، فاتفقوا على أن الخطأ في الإعراب لا يفسد مطلقا ولو اعتقاده كفرا لأن أكثر الناس لا يميزون بين وجوه الإعراب. قال قاضي خان: وما قال المتأخرون أوسع، وما قاله المتقدمون أحوط
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی