سوال:
میراسوال یہ ہے کہ ایک شخص لا پتہ ہوجاتا ہے اور کم وبیش بیس سال بعد واپس آتا ہے، تو معلوم ہوا کہ اسکی بیوی دوسری شادی کرچکی ہے، مگر اسکے آنے کے بعد وہ واپس آجاتی ہے بغیر طلاق کے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ شخص جہاد پر گیا تھا اور شہادت کی خاطر وہ آگے بڑھتا گیا، بالآخر شہادت نصیب میں نہیں تھی، اور وہ واپس آگیا۔ اب اسکی بیوی اور دوسرے شوہر کے لئے کیا حکم ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں بیوی پہلے شوہر کے پاس رہے گی اور دوسرے شوہر کے ساتھ اس عورت کا نکاح خود بخود باطل (ختم)ہوجائے گا، البتہ پہلے شوہر کو اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں، جب تک کہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے، عدت کے دوران پہلے شوہر کے پاس ہی رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المبسوط للسرخسی: (37/11، ط: دار المعرفۃ)
المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت، وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حيا إنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي - رضي الله عنه -، فإنه كان يقول ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر وبهذا كان يأخذ إبراهيم - رحمه الله - فيقول: قول علي - رضي الله عنه - أحب إلي من قول عمر - رضي الله عنه -، وبه نأخذ أيضا؛ لأنه تبين أنها تزوجت، وهي منكوحة ومنكوحة الغير ليست من المحللات بل هي من المحرمات في حق سائر الناس كما قال الله تعالى: {والمحصنات من النساء} [النساء: ٢٤] فكيف يستقيم تركها مع الثاني، وإذا اختار الأول المهر، ولكن يكون النكاح منعقدا بينهما فكيف يستقيم دفع المهر إلى الأول، وهو بدل بضعها فيكون مملوكا لها دون زوجها كالمنكوحة إذا وطئت بشبهة، فعرفنا أن الصحيح أنها زوجة الأول، ولكن لا يقربها لكونها معتدة لغيره كالمنكوحة إذا وطئت بالشبهة.
الحیلۃ الناجزۃ: (ص: 67- 68، ط: دار الاشاعت)
وہ مفقود جس پر مرافعہ و تفتیش کے بعد چار سال کا تک انتظار کرکے قاضی نے موت کا حکم دیا ہو۔۔۔۔لیکن امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کا مذہب اس بارے میں یہ ہے کہ اگر مفقود حکم بالموت کے بعد بھی واپس آجائے، تو اس کی عورت ہر حال میں اسی کو ملے گی۔۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی