عنوان: کیا بزرگوں کے "مجرّبات " جو قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہوں، بدعت کہلائیں گے؟(1170-No)

سوال: مجرب عمل کس کو کہتے ہیں؟ اگر یہ حدیث سے ثابت نہیں تو ان کو بدعت کیوں نہیں کہا جاتا، جبکہ بدعت وہ اعمال ہیں جو سنت نہ ہوں اور ان کو دین سمجھ کر کیا جاتا ہو؟

جواب: واضح رہے کہ "مجرب عمل" ہر اس عمل یا وظیفے کوکہا جاتا ہے جو کسی بزرگ نے اپنے تجربہ کی روشنی میں روحانی یا جسمانی امراض سے شفا یا دوسرے جائز مقاصد کے حل کے لیے بتایا ہو،جبکہ وہ عمل قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے اس مخصوص طریقہ اور تعداد کے ساتھ صراحتاً ثابت نہ ہو، لیکن اس کی کوئی نہ کوئی اصل قرآن یا حدیث میں موجود ہو۔
اس کی مثال جیسا کہ بعض اولیاء اللہ نے مشکلات اور مصائب کے حل کے لیے ایک مخصوص تعداد میں آیت کریمہ (لا اله الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین) پڑھنا تجویز کیا ہے، اور مصائب کے حل کے لیے ایک مخصوص تعداد میں پڑھنے کو مجرب اور نافع قرار دیا ہے، جبکہ اس مخصوص تعداد میں ان کلمات کو پڑھنے کا تذکرہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی موجود نہیں ہے، لہذا ثبوت کے بغیر کسی مخصوص تعداد میں پڑھنے کو "مستحب" نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم قرآن و حدیث میں چونکہ مقاصد کے حل کے لیے آیتِ کریمہ پڑھنے کی طرف اشارہ موجود ہے، جیسا کہ سورہ انبیاء میں ہے:وكذلك ننجي المؤمنين ... الآية یعنی جس طرح ہم نے یونس علیہ السلام کو (اس دعا کی برکت سے) غم ومصیبت سے نجات دی، اسی طرح ہم اب مؤمنین کے ساتھ یہی معاملہ کرتے ہیں۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"ذوالنون (حضرت یونس علیہ السلام) نے جو دعا مچھلی کے پیٹ میں کی تھی، جو مسلمان بھی اپنے کسی مقصد کے لیے ان کلمات کے ساتھ دعا کرے گا اللہ تعالی اس کو قبول فرمائیں گے"۔ (سنن ترمذی ، حدیث نمبر : 3505)
لہذا شرعی طور پر ایسے مجربات پر عمل کرنے کا حکم محض جواز اور مباح کا ہوگا، یعنی اگر کوئی اسے سنت یا ضروری سمجھ کر نہ کرے تو اس مخصوص تعداد میں پڑھنے کی گنجائش ہوگی اور شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
بدعت کی تعریف: اصل لغت میں بدعت ہر نئی چیز کو کہتے ہیں، خواہ عبادات سے متعلق ہو، یا عادات سے، اور اصطلاح شرع میں ہر ایسے نو ایجاد طریقۂ عبادت کو بدعت کہتے ہیں، جو زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدینؓ کے بعد اختیار کیا گیا ہو۔ اور آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عہد مبارک میں اس کا داعیہ اور سبب موجود ہو نے کے باوجود نہ قولاً ثابت ہو، نہ فعلاً نہ صراحتاً نہ اشارتاً۔ (جواہر الفقہ، 458/1)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ "بدعت" کو دین کا جز (یعنی دین کا ثابت شدہ حصہ) سمجھ کرکیا جاتا ہے، جبکہ "مجرب عمل" کو دین کا جز یا لازم سمجھ کر نہیں کیا جاتا، اور یہ عمل نہ کرنے والے پر کوئی نکیر کی جاتی ہے اور نہ ہی اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لہذا اگر کسی بزرگ کے "مجرب عمل" کو سنت یا لازم سمجھ کر کیا جائے تو وہ بھی یقینا بدعت کہلائے گا اور اس کا چھوڑنالازم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مرقاۃ المفاتیح: (223/1، ط: دار الفکر)
قال النووي: البدعة كل شيء عمل على غير مثال سبق، وفي الشرع إحداث ما لم يكن في عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم -

الاعتصام للشاطبي: (51/1، ط: دار ابن عفان)
أن الأحكام المتعلقة بأفعال العباد وأقوالهم ثلاثة: حكم يقتضيه معنى الأمر; كان للإيجاب أو الندب، وحكم يقتضيه معنى النهي، كان للكراهة أو التحريم. وحكم يقتضيه معنى التخيير، وهو الإباحة.
فأفعال العباد وأقوالهم لا تعدو هذه الأقسام الثلاثة: مطلوب فعله، ومطلوب تركه، ومأذون في فعله وتركه.والمطلوب تركه لم يطلب تركه إلا لكونه مخالفا للقسمين الأخيرين، لكنه على ضربين:
أحدهما: أن يطلب تركه وينهى عنه لكونه مخالفة خاصة مع مجرد النظر عن غير ذلك، وهو إن كان محرما; سمي فعلا معصية وإثما وسمي فاعله عاصيا وآثما، وإلا، لم يسم بذلك، ودخل في حكم العفو; حسبما هو مبين في غير هذا الموضع، ولا يسمى بحسب الفعل جائزا ولا مباحا، لأن الجمع بين الجواز والنهي جمع بين متنافيين.والثاني: أن يطلب تركه وينهى عنه لكونه مخالفة لظاهر التشريع; من جهة ضرب الحدود، وتعيين الكيفيات، والتزام الهيئات المعينة، أو الأزمنة المعينة مع الدوام، ونحو ذلك، وهذا هو الابتداع والبدعة، ويسمى فاعله مبتدعا.فالبدعة إذن عبارة عن: طريقة في الدين مخترعة، تضاهي الشرعية يقصد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه.وهذا على رأي من لا يدخل العادات في معنى البدعة۔

بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية: (87/1، ط: مطبعة الحلبي)
جمع بدعة خلاف السنة اعتقادا وعملا وقولا وهذا معنى ما قالوا البدعة في الشريعة إحداث ما لم يكن في عهد رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم -.وعن زين العرب البدعة ما أحدث على غير قياس أصل من أصول الدين.وعن الهروي البدعة الرأي الذي لم يكن له من الكتاب ولا من السنة سند ظاهر أو خفي مستنبط وقيل عن الفقهية البدعة الممنوعة ما يكون مخالفا لسنة أو لحكمة مشروعية سنة فالبدعة الحسنة لا بد أن تكون على أصل وسند ظاهر أو خفي أو مستنبط

البدع العملية لأحمدبن عبدالله: (ص: 417، ط: مكتبة دار المنهاج)
العمل بالتجريب معناه أن تتخذ بعض الرقي أو الدعوات والتعويذات المخصوصة لعوارض معينة؛ وحجة تعيينها التجربة، مثال ذلك: من يعين قراءة سورة القدر لحفظ المال أو للأمن من اللدغ ثم
يقول: جربتها فوجدت أثرها . وقد أخذ بعض أهل العلم ببعض المجريات فقالوا بها، منهم المنذري وابن عطية والقرطبي وابن تيمية وابن القيم وابن الجزري والسيوطي وابن عقيلة المكي، وذكره الشوكاني عن
الحاكم والبيهقي والواحدي والمجرب قد يكون له أصل ضعيف أو موضوع وقد لا يكون له أصل في الدين أما ما كان له أصل في الدين كقراءة الفاتحة على اللديغ فإنه لا يحل إقراره بنتيجته لما فيه من التردد في قبول الوحي.ودليل القائلين بالتجربة عُموم ما روى مسلم في صحيحه من حديث جابر له أن النبي ﷺ قال: من استطاع منكم أن ينفع أخاه فليفعل قال ابن حجر وقد تمسك قوم بهذا العموم فأجازوا كل رقية جريت منفعتها ولو لم يُعقل معناها ومن أمثلة اعتماد بعض العلماء على المجربات ما ذكر المنذري في الترغيب والترهيب حيث أثبت حديثاً موضوعاً لقضاء الحاجة قال بعد ما ذكر علته والاعتماد في مثل هذا على التجربة لا على الإسناد والله ومن وقد ذكر قبل ذلك من رواته من جربه فوجده حقاً.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 771 Mar 30, 2019
Kia buzurgon kay mujarribat jo hadees say sabit nahi hon wo bidat kehlaengay , Will the "experiments" of the elders which are not proven by the hadith be called bid'ah?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Bida'At & Customs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.