سوال:
السلام علیکم، حضرت ! کیا کتے کا پالنا منع ہے؟
جواب: اگر کتا شکار کے لیے، کھیتی وغیرہ کی حفاظت کے لیے یا گھر کی چوکیداری کے لیے رکھا جائے، تو شرعاً اس کی اجازت ہے، اور اِس مقصد کے لیے اُس کی خرید وفروخت بھی جائز ہے، اور اگر کتا ان مقاصد کے لیے نہ ہو، تو چوں کہ کتا ایک نجس جانور ہے، اس لیے اس کو گھر میں شوقیہ رکھنا، اس کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرنا، اس کو اپنے ساتھ گھمانا پھرانا، جیسا کہ مغرب زدہ طبقے میں رائج ہے، شرعاً ممنوع ہے اور اس مقصد کے لیے کتے کی خرید وفروخت بھی ناجائز ہے، اِس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب ما جاء من أمسک کلبا، 132/3، ط: دار الغربی الاسلامی)
عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من اتخذ كلبا إلا كلب ماشية، أو صيد، أو زرع، انتقص من أجره كل يوم قيراط.
الدر المختار: (226/5، ط: دار الفکر)
(وصح بيع الكلب) ولو عقورا (والفهد) والفيل والقرد (والسباع) بسائر أنواعها۔۔۔۔لا ينبغي اتخاذ كلب إلا لخوف لص أو غيره فلا بأس به ومثله سائر السباع عيني وجاز اقتناؤه لصيد وحراسة ماشية وزرع إجماعا
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی