سوال:
میری شادی کے کچھ عرصہ بعد میری بیوی کا انتقال ہو گیا ہے، مہر میں چھ کنال اور تین مرلہ زمین مقرر ہوئی تھی، میری بیوی کے ورثاء میں شوہر اور دو حقیقی بھاٸی ہیں تو کیا بھاٸیوں کو اس زمین میں بطور وراثت حصہ ملے گا یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ پوچھی گئی صورت میں مرحومہ بیوی کا مہر اس کا ترکہ بن گیا ہے، اور یہ اس کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
لہذا اگر مرحومہ کے صرف یہی تین (شوہر اور دو بھائی) وارث ہوں تو مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو چار (4) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے شوہر کو دو (2) اور دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو شوہر کو %50 فیصد حصہ اور دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو %25 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ
صحیح البخاری: (باب ميراث الولد من أبيه وأمه، رقم الحدیث: 6732)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا ، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ .
السنن الکبریٰ للبیهقي: (کتاب الصداق، رقم الحدیث: 14850، ط: دار الفکر)
محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان عن النبي صلی اﷲ علیه وسلم مرسلاً: من کشف خمار امرأة ونظر إلیها، فقد وجب الصداق دخل بها، أولم یدخل".
الھندیة: (451/6، دار الفکر)
(الباب الثالث في العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.
فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی