سوال:
ایک سال پہلے کینسر کے ساتھ ایک نوجوان خاتون مر گئی، اس کے پاس ایک سال کا بچہ تھا. وہ دوسری بیوی تھی. اس کے شوہر سے جو اپنی زندگی میں اپنی مالی ضروریات یا اپنے بیٹوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے. اب لڑکا اپنی سوتیلی ماں اور والد کے ساتھ رہتا ہے،
عورت کی موت کے بعد انشورنس پیسہ ملنا تھا اور اسے اپنے بیٹوں کے مستقبل کے لئے کچھ چھوڑنا تھا. اب اس خاتون کا بھائی وہ سب رقم خرچ کر رہا ہے بغیر اجازت کے، اسلام اس کے بارے میں کیا کہتا ہے اور یتیم کے پیسہ کو استعمال کرنے والا شخص کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں جب میت کا بیٹا موجود ہے، تو اس کے ماموں کا اپنی بہن کے ترکہ میں شرعا حصہ نہیں ہے، لہذا اس کا اپنے یتیم بھانجے کی میراث میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ یتیم کے مال کو ناحق کھانے کا سنگین گناہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (بنی اسرائیل، الایة: 34)
وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ....الخ
الھندیۃ: (450/6، ط: دار الفکر)
ويسقط الإخوة والأخوات بالابن وابن الابن وإن سفل
الاشباہ و النظائر: (243/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
لا يجوز التصرف في مال غيره بغير إذنه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی