سوال:
1) میری ایک بہن ہے، جن کے شوہر کا انتقال 16 اکتوبر 2023 کو ہوا ہے، مرحوم کے دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ وراثت میں بڑی چیزوں میں کار، لیپ ٹاپ اور آفس کی گریجویٹی اور پروویڈنٹ فنڈ ہیں، اس میں میری بیوہ بہن کا کیا حصہ بنتا ہے، جبکہ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔
2) جائیداد میں ایک گھر یا فلیٹ جو کہ مرحوم کے بھائیوں کے کہنے کے مطابق ان کے والد صاحب کے نام ہے، ان کے والد صاحب 2004 میں وفات پاچکے ہیں اور مرحوم کی والدہ بھی 2019 میں وفات پاچکی ہہں، جبکہ مرحوم کے دادا اور دادی بھی وفات پاچکے ہیں۔ اس جائیداد میں میری بہن کا شرعی حصہ کتنا بنتا ہے؟
3) زیورات جو میری بیوہ بہن کی ملکیت ہیں (جہیز، بری اور تحائف کی شکل میں) وہ بیوہ کے حصہ میں شامل ہوں گے یا ان کا بھی ترکہ بنتا ہے؟ آپ سے فتوی کی شکل میں رہنمائی درکار ہے۔
جواب: 1) واضح رہے کہ آپ کے مرحوم بہنوئی کی وہ تمام متروکہ چیزیں جو مرتے وقت ان کی ملکیت میں تھیں، اسی طرح ان کا کوئی ایسا مالی حق جو ان کی زندگی میں واجب الادا ہوگیا ہو اور وہ اپنی زندگی میں کسی وقت اس کا لازمی طور پر مطالبہ کرسکتے ہوں، ان تمام چیزوں میں آپ کی بہن کا ایک چوتھائی (1/4) حصہ ہے۔
2) اسی طرح آپ کے مرحوم بہنوئی کو اپنے مرحوم والدین کی میراث میں سے ملنے والے حصہ میں بھی آپ کی بہن کو ایک چوتھائی (1/4) حصہ ملے گا۔
3) اگر زیورات اور تحائف وغیرہ آپ کی بہن کی ملیکت ہوں تو ان میں آپ کے مرحوم بہنوئی کی میراث جاری نہیں ہوگی، بلکہ وہ صرف آپ کی بہن کی ملکیت ہیں۔ اسی طرح لڑکی کو شادی کے موقع پر جو کچھ والدین کی طرف سے جہیز کے طور پر دیا جاتا ہے، لڑکی اس کی مالک بن جاتی ہے، لہذا اس میں بھی صرف آپ کی بہن کی ملکیت ہے، اور کسی کا حصہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ... الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (759/6، ط: دار الفکر)
(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن)
(قوله الخالية إلخ) صفة كاشفة لأن تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية.
رد المحتار: (157/3، ط: دار الفکر)
قال الشيخ الإمام الأجل الشهيد: المختار للفتوى أن يحكم بكون الجهاز ملكا لا عارية لأن الظاهر الغالب إلا في بلدة جرت العادة بدفع الكل عارية فالقول للأب. وأما إذا جرت في البعض يكون الجهاز تركة يتعلق بها حق الورثة هو الصحيح. اه.
بدائع الصنائع: (57/7، ط: دار الکتب العلمیة)
لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل
المبسوط للسرخسی: (55/30، ط: دار المعرفة)
وإذا مات الرجل ولم تقسم تركته بين ورثته حتى مات بعض ورثته فالحال لا يخلو إما أن يكون ورثة الميت الثاني ورثة الميت الأول فقط أو يكون في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول۔۔۔۔۔وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت فإنه تقسم تركة الميت الأول أولا لتبين نصيب الثاني، ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی