سوال:
السلام عليكم ورحمة اللہ، ميں ایک عرب ملک میں مقیم ہوں، یہاں جمعہ کے دن ظہر کا وقت شروع ہوتے ہی فورا اذان شروع ہو جاتی ہے اور اذان ختم ہوتے ہی فورا امام صاحب خطبہ شروع کر دیتے ہیں اور خطبہ کے ختم ہوتے ہی فورا جماعت کھڑی ہو جاتی ہے۔
اس صورت حال میں جمعہ سے پہلے کی چار سنتیں کیسے ادا کریں؟ کیونکہ اذان کے دوران یا خطبہ کے دوران نماز پڑھنا مناسب نہیں اور ظہر کا وقت شروع ہونے سے 15 منٹ قبل کا وقت زوال کا ہوتا ہے، جس میں نماز ادا کرنا درست نہیں۔
دوسرا سوال یہاں تحية المسجد بہت پابندی کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ وہ لوگ جو دوران خطبہ مسجد میں داخل ہوتے ہیں، وہ بہی خطبہ کے دوران تحية مسجد ادا کرتے ہیں، پھر خطبہ سنے کے لیے بیٹھے ہیں اور عرب رفقا ہمیں بھی یہی تلقین کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ایک حدیث کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفع نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ اس دوران ایک صحابی مسجد میں داخل ہوے، ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلےتحية المسجد ادا کرنے کا حکم دیا۔
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں، جزاک اللہ خیرا
جواب: 1- احناف کے نزدیک خطبہ کے دوران گفتگو کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا اور نماز پڑھنا منع ہے۔
شوافع اور حنابلہ کے نزدیک جمعہ کے لئے آنے والے کو خطبہ کے دوران تحیة المسجد پڑھنا مستحب ہے۔
شوافع اور حنابلہ کی دلیل:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ قَالَ جَائَ سُلَيْکٌ الْغَطَفَانِيُّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَعَدَ سُلَيْکٌ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَکَعْتَ رَکْعَتَيْنِ قَالَ لَا قَالَ قُمْ فَارْکَعْهُمَا
(مسلم شریف ،کتاب الجمعة،حدیث نمبر:1927)
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلیک غطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کے دن آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے تو سلیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھنے سے پہلے بیٹھ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: تو نے دو رکعتیں پڑھ لی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھ لو۔
احناف کی دلیل:
1۔واذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا
(سورۃ الاعراف 204 )
اور جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو تم اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔
اس آیت کے نزول کے بعد مذکورہ حدیث شریف منسوخ ہوگئی۔
(البدائع الصنائع: ج:1، ص :264)
2۔ عن ابی ھریرة ان رسول اللہﷺ قال:من قال لصاحبه والإمام يخطب أنصت فقد لغا ومن لغا۔
(سنن الترمذی:باب ما جاء فی کراھیة الکلام والامام یخطب ،٩٤/١ )
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو تو کوئی اپنے پاس بیٹھے ہوئے سے یہ کہے کہ “چپ رہ” تو اس نے ایک لغو حرکت کی۔
شوافع اور حنابلہ کی دلیل کا جواب
1۔ روي عن ابن عمر - رضي الله عنهما - أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «أمر سليكا أن يركع ركعتين ثم نهى الناس أن يصلوا والإمام يخطب» فصار منسوخا أو كان سليك مخصوصا بذلك۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیک غطفانی کو دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں امام کے خطبہ کے دوران نماز پڑھنے سے منع کردیا۔
(البدائع الصنائع: ج :1، ص: 264)
2۔ یہ روایت قرآن کریم کی آیت اذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا کے اور ان احادیث مبارکہ کے معارض ہے، جن میں دوران خطبہ نماز پڑھنے اور بات چیت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
3۔ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ منع والی احادیث پر عمل کرنے میں احتیاط زیادہ ہے، کیونک تحیة المسجد کسی کے نزدیک واجب نہیں ہے، لہذا اس حدیث کو ترک کرنے میں کسی کے نزدیک گناہ کا احتمال نہیں ہے، جبکہ نھی عن الصلاة و الکلام یعنی نماز اور بات چیت سے منع کرنی والی احادیث کو ترک کرنے سے گناہ کا اندیشہ ہے، اس بناء پر احناف نے احتیاط اس میں سمجھی کہ نھی یعنی منع کے دلائل پر عمل کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خطبہ کے وقت ترک صلاة کو اختیار کیا.
(مستفاد از درس ترمذی: ج:١ ، ص:٢٩٤)
لہذا راجح یہی ہے کہ خطبہ کے دوران تحیة المسجد نہ پڑھی جائے۔
2- امام احمدبن حنبل ؒ کے نزدیک جمعہ کا وقت زوال سے پہلے شروع ہوتا ہے، اس لئےصورت مسئولہ میں حنفی حضرات کو چاہیئے کہ وہ سنتیں جماعت کے بعد ادا کرلیا کریں۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی